حضرت جابر ؓ کے بچوں کا زندہ ہونا

غیر معتبر روایات سلسلہ نمبر 1

حضرت جابر ؓ کے بچوں کا زندہ ہونا
سوال: مختلف بیانات میں یہ قصہ سنا ہے کہ غزوہ خندق میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے حضور علیہ السلام کا اکرام کیا اور جب بکری کو ذبح کیا تو ان کے دو بچے اس منظر کو دیکھ رہے تھے، پھر ایک بچے نے دوسرے کو ذبح کیا اور پھر خود تندور میں گر کر مرگیا اور پھر آپ علیہ السلام کی دعا سے دونوں بچے اور بکری تینوں زندہ کردیئے گئے...کیا یہ واقعہ درست ہے.؟
الجواب باسمه تعالی
اس واقعہ کی دو نوعیتیں ہیں: صحیح اور غیر صحیح.
واقعے کی صحیح شکل:
یہ واقعہ صحاح کی تمام کتابوں میں پوری تفصیل کے ساتھ منقول ہے:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خندق میں ایک سخت چٹان نکلی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ علیہ السلام سے عرض کیا کہ یہ چٹان نکلی ہے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اتر رہا ہوں، پھر آپ علیہ السلام اٹھے اور آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا اور ہم نے تین دن سے کوئی چیز نہیں چکھی تھی. آپ علیہ السلام نے ہتھوڑا لیا اور اس چٹان کو مارا تو چٹان بلکل ریزہ ریزہ ہوگئی، میں نے آپ علیہ السلام سے گھر جانے کی اجازت چاہی اور اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے آپ علیہ السلام کو اس حال میں دیکھا ہے کہ اب مزید صبر مشکل ہے، کیا گھر میں کھانے کو کچھ ہے؟ میری بیوی نے کہا کہ تھوڑا سا جو اور ایک بکری کا بچہ ہے، میں نے وہ بکری کا بچہ ذبح کیا اور جو کو پیس لیا اور اس گوشت کو ہانڈی میں ڈالا، پھر میں آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ تھوڑا سا کھانا موجود ہے، بس آپ اور ایک دو ساتھی چلیں. آپ علیہ السلام نے پوچھا کہ کھانا کتنا ہے؟ میں نے مقدار عرض کی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: بہت ہے، البتہ گھر والوں سے کہو کہ ہانڈی چھولے سے نہ اتاریں اور میرے آنے سے پہلے روٹی تندور سے نہ نکالیں.
میں گھر آیا اور بیوی سے کہا کہ تیرا ناس ہو! آپ علیہ السلام مہاجرین اور انصار کو لے کر تشریف لارہے ہیں.
بیوی نے پوچھا کیا آپ علیہ السلام نے تم سے پوچھ لیا تھا؟ میں نے کہا: ہاں پوچھ لیا تھا.
اس کے بعد آپ علیہ السلام داخل ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ داخل ہوجاؤ اور جلدبازی نہ کرو، اور خود روٹی توڑ توڑ کر ساتھیوں کو دیتے رہے اور ہانڈی اور تندور کو ڈھانکے رکھا یہاں تک کہ وہ کھانا سب کو کافی ہوگیا بلکہ کچھ کھانا بچ بھی گیا.
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ خود بھی کھاؤ اور لوگوں کو بھی کھلاؤ کیونکہ لوگوں کو بھوک نے ستایا ہے.
إنَّا يَومَ الخَندَقِ نَحفِرُ، فعَرَضَت كُدْيَةٌ شَديدَةٌ، فجاءوا النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فقالوا: هذه كُدْيَةٌ عَرَضَت في الخَندَقِ، فقال: "أنا نازِلٌ". ثُمَّ قامَ وبَطْنُهُ مَعصوبٌ بحَجَرٍ، ولَبِثنا ثلاثةَ أيَّامٍ لا نَذوقُ ذَواقًا، فأخذ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم المِعْوَلَ فضرب الكُدْيَة، فعاد كَثيبًا أهيَلَ، أو أهيَمَ، فقُلْت: يارسولَ اللهِ! ائذَن لي إلى البيتِ، فقُلْت لامرأتي: رأيتُ بالنبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم شيئًا ما كان في ذلك صبرٌ، فھل عِندَك شيءٌ؟ قالتْ: عِندي شَعيرٌ وعَناقٌ، فذَبَحت العَناقَ، وطَحَنَتِ الشَّعيرَ حتى جَعَلنا اللَّحمَ في البُرمَةِ، ثم جئتُ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم والعَجينُ قَد انكَسَر، والبُرمَةُ بينَ الأثافِيِّ قد كادَت تنضَج، فقُلْت: طُعم لي، فقُم أنتَ يارسولَ اللہ ورجلٌ أو رجلانِ، قال: "كَم هو"؟ فذَكَرتُ له، قال: "كَثيرٌ طَيِّبٌ، وقال: قُلْ لها: لا تَنزِعِ البُرمَةَ، ولا الخُبزَ مِنَ التَّنُّورِ حتى آتيَ، فقال: قوموا". فقام المُهاجِرونَ والأنصارُ، فلما دخل على امرأتِهِ قال: ويحكِ جاء النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم بالْمُهاجِرينَ والأنصارِ ومن مَعَهم، قالتْ: هل سألكَ؟ قُلْت: نعم، فقال: "ادْخُلوا ولا تَضاغَطوا". فجعل يَكسِرُ الخُبزَ، ويجعَلُ عليه اللَّحمَ، ويُخَمِّرُ البُرْمَةَ والتَّنُّورَ إذا أخَذَ مِنهُ، ويُقَرِّبُ إلى أصْحابِهِ ثم يَنزِعُ، فلم يَزَل يَكسِرُ الخُبزَ، ويَغرِفُ حتى شَبِعوا وبَقيَ بَقيَّةٌ، قال: "كُلي هذا وأهْدي، فإنَّ الناسَ أصابَتهُم مَجاعَةٌ".

- الراوي: جابر بن عبدالله.
- المحدث: البخاري.
- المصدر: صحيح البخاري.
- الصفحة أو الرقم: 4101.
- خلاصة حكم المحدث: صحيح.

اس واقعے پر کچھ اضافہ:
علامہ ابن حجر رحمه اللہ نے ایک روایت میں نقل کیا ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آپ علیہ السلام اپنے تمام ساتھیوں سمیت روانہ ہوئے تو مجھے بہت شدید شرمندگی نے آگھیرا کہ ایک صاع جو اور ایک بکری کے بچے کیلئے اتنے لوگ آگئے. میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ آج تو رسوا ہوگئے، حضور علیہ السلام سب ساتھیوں کو لے کر تشریف لے آئے. میری بیوی نے کہا کہ کیا آپ علیہ السلام نے تم سے کھانے کی مقدار پوچھی تھی؟ میں نے کہا: ہاں، تو بیوی نے کہا کہ پھر اللہ اور اس کا رسول جانے، ہم نے تو اپنی نوعیت بتادی ہے.
وذكر ابن حجر في رواية يونس:

قال جابر رضی اللہ عنہ فلقيت من الحياء ما لا يعلمه إلا الله عزوجل، وقلت: جاء الخلق على صاع من شعير وعناق، فدخلت على امرأتي أقول: افتضحت!!. جاءك رسول الله صلى الله عليه وسلم بالخندق أجمعين، فقالت: هل كان سألك كم طعامك؟ فقلت: نعم ، فقالت: الله ورسوله أعلم، ونحن قد أخبرناه بما عندنا.
ایک اور روایت میں ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ لوگ کتنے تھے؟ فرمایا چودہ سو(١٤٠٠).

اس واقعہ پر غیر صحیح اضافہ:
اس واقعے پر (سوال میں) جو اضافہ مذکور ہے کہ دونوں بچے حادثے کا شکار ہوئے اور پھر آپ علیہ السلام کی دعا کی برکت سے زندہ ہوئے. یہ اضافہ علامہ صفوری کی کتاب نزہت المجالس میں مذکور ہے.
اس واقعے کے غرائب:
١. آپ علیہ السلام صحابہ کے ساتھ جب حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے تو گھر چھوٹا پڑگیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جابر! کیا تم یہ چاہتے ہو کہ الله تمہارے گھر میں برکت عطا فرمائے؟ میں نے عرض کیا ضرور، آپ علیہ السلام نے دعا کی اور چھت اوپر کو اٹھی اور دیواریں کشادہ ہونے لگیں.
٢. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا تقسیم کرنے کے بعد فرمایا: جابر بچوں کو بلاؤ تاکہ میرے ساتھ کھانا کھالیں، جابر رضی اللہ عنہ بیوی کے پاس گئے اور بچوں کا کہا تو بیوی نے کہا کہ وہ سورہے ہیں، جابر رضی اللہ عنہ نے آپ علیہ السلام کو اس کی خبر دی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا کی قسم! میں ان کے بغیر نہیں کھاؤنگا. حضرت جابر اپنے بچوں کو جگانے گئے اور چادر ہٹائی تو دیکھا کہ دونوں زندہ ہیں.
قال جابر بن عبدالله رضي الله عنهما لزوجته يوم حفر الخندق وعرفت في وجه النبي صلى الله عليه وسلم الجوع؛ فهل عندك شيء؟ قالت صاع من شعير، فطحنته وعناق فذبحته، فأصلحت طعاما فتوجه جابر إلى الخندق والنبي صلى الله عليه وسلم ينقل التراب، وكان له ولدان. فقال أحدهما للآخر: ألا أريك كيف ذبحت الشاة فذبحه فما شعرت أمه إلا والدم يسيل من الميزاب فصاحت أمه فهرب الصبي في التنور فمات، فأخذتهما وجعلتهما في البيت ودثرتهما بكساء واشتغلت بطعامها لأجل النبي صلى الله عليه وسلم، فأتى بالمهاجرين والأنصار إلى دار جابر وكانت صغيرة، فقال: ياجابر! أتحب أن يوسع الله دارك؟ قال: نعم، قال: فجثى على ركبتيه ودعا، قال جابر: فوالذي بعثه بالرسالة إني نظرت إلى السقوف قد ارتفعت وإلى الجدران قد تباعدت فسكب النبي صلى الله عليه وسلم الطعام بيده، وقال: ياجابر! ادع أولادك حتى آكل معهم، فذهب إلى زوجته فقالت: انهم نيام، فأخبر النبي صلى الله عليه وسلم بذلك فقال: والذي نفسي بيده لا آكل إلا معهم، فرجع جابر إلى زوجته فقالت: دونك وإياهم. فدخل البيت وكشف عنهما الغطاء فوجدهما بالحياة متعانقين فقعد أحدهما عن يمين النبي صلى الله عليه وسلم والآخر عن يساره فأكلوا حتى شبعوا فتبسم النبي صلى الله عليه وسلم وقال: ياجابر! أخبرك بما أخبرني به جبريل، قال: نعم، فأخبره بما حدث من أمر ولديه، فتعجب من ذلك وقد حصل له ولزوجته الفرح والسرور.

اس اضافے کی اسنادی حیثیت:
یہ اضافہ سب پہلے عبدالرحمن بن عبدالسلام الصفوری کی کتاب "نزہت المجالس" میں ملتا ہے اور دیگر لوگوں نے وہیں سے آگے نقل کیا ہے، یہ اضافہ درست نہیں ہے.
فأصل قصة جابر وزوجته رضي الله عنهما مع النبي صلى الله عليه وسلم في غزوة الخندق، وما حصل من تكثير الطعام القليل، حتى كفى العدد الكثير، فهذا ثابت في الصحيح بلا ريب.
أمّا الزيادة (التي ذكرها صاحب نزهة المجالس) المتعلقة بموت ولدي جابر أثناء تحضير المرأة الطعام، فقد ذكرها حكاية من غير إسناد، ولم نقف على هذه الزيادة في شيء من كتب السنة التي بين أيدينا، فالظاهر أنّه لا أصل لها....والله أعلم.

امام صفوری کا تعارف:
شیخ صفوری ایک مؤرخ اور ادیب تھے.
نام: عبدالرحمن بن عبدالسلام الصفوري.
تاريخ الوفاة: 894ھ.
ترجمة المصنف الصفوري (المتوفی 894هـ =1489م)
عبدالرحمن بن عبدالسلام بن عبدالرحمن بن عثمان الصفوري الشافعي: مؤرخ أديب من أهل مكة، نسبته إلى صفورية في الأردن.
من كتبه:
- (المحاسن المجتمعة في الخلفاء الأربعة - خ) في الظاهرية (229 ورقة)
- (نزهة المجالس، ومنتخب النفائس - ط)
- كتاب (الصيام - خ) في الأزهرية.
- (صلاح الأرواح والطريق إلى دار الفلاح - خ) فقه، في البصرة (العباسية).

کتاب نزہت المجالس کی حیثیت:
یہ کتاب ہر موضوع پر مشتمل مواد سے بھری پڑی ہے اور اس کتاب میں ہر طرح کی صحیح اور غلط روایات کی بہت بڑی تعداد موجود ہے، ابتداء سے ہی علمائے کرام نے اس کتاب پر اعتماد نہیں کیا.
بلکہ اس کتاب میں ذکر کردہ موضوع روایات کی بنیاد پر شیخ شہاب الدین الحمصی نے جامع اموی سے ان کی درس کی کرسی ہٹانے کا حکم دیا تھا.
وبسبب كتابه هذا حكم عليه الشهاب الحمصي برفع كرسيه من الجامع الأموي يوم 15 جمادى الأولى 899هـ كما حكى في كتابه "حوادث الزمان". وذلك بسبب ما حشره فيه من الحديث الموضوع.
- مشاهير كتب الرقائق.
يكاد يكون خلاصة لکل ما ورد فیہا من حکایا الصالحین، ونوادر و اخبارہم، الفہ الصفوري كما يبدو في مدة طويلة، بعد تأليف كتابه "صلاح الأرواح". ورتبه على أركان الإسلام وشعب الإيمان، وختمه بخصائص النبي صلی اللہ علیه وسلم سيما في المولد والمعراج، ثم مناقب أمهات المؤمنين، والعشرة المبشرين، وحشده بما انتخبه من نفائس الكتب والتفاسير المشهورة.
طبع الكتاب لأول مرة بالمطبعة الأزهرية بمصر في جزئين (سنة:1346هـ) بعناية إبراهيم الفيومي.

اس کتاب پر علمائےکرام کے تبصرے:
١.  یہ کتاب ہر طرح کی موضوعات سے بھری ہوئی ہے.
والكتاب المذكور المسمى "نزهة المجالس" فيه موضوعات وأشياء لا أصل لها، وقد نبه على هذا السيوطي في فتاواه وخرج بعض تلك المرويات، والواجب الحذر من هذا الكتاب.
٢. اس کتاب کے مصنف شافعی تھے، لیکن حضرات شوافع نے اس کتاب کو باطل لکھا ہے.
الكتاب متكلم فيه حتى من السادة الشافعية أنفسهم وكنت قد طالعت بعض كلام الشافعية ممن وقف على الكتاب ونبه على بطلان ما فيه وعلى عدم الاعتماد على صاحبه لكونه حشى كتابه بالبواطل.
٣. اس کتاب میں ہر طرح کی چیزیں اور اسرائیلیات موجود ہیں جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے.
*السؤال:*
كتاب نزهة المجالس للصفوري ھل ھو كتاب معتمد أستطيع أن أتبع منهجه أو أنه من الكتب الممنوعة حسب ما قيل لي؟ من فضلکم أفيدوني؟...وجزاكم الله خيراً.
*الجواب:*
فإن هذا الكتاب مليء بالقصص الإسرائيلية والأحاديث التي لا تثبت، ولهذا فإنه لا يمكن أن يعتمد عليه ولا أن يتبع منهجه، بل الواجب الاستغناء عنه بالقرآن وكتب التفسير المعتمدة وكتب الحديث، ومؤلفات العلماء المحققين في المواعظ والرقائق والأخلاق.
اس روایت کا جتنا حصہ مستند کتب میں موجود ہے وہ تو قابل اعتماد ہے، لیکن جو اضافہ نقل کیا گیا ہے وہ کسی بھی مستند کتاب میں موجود نہیں، البتہ جس کتاب میں منقول ہے وہ کتاب اس قابل ہی نہیں کہ اس پر اعتماد کیا جاسکے، لہذا اس روایت (کے غیرمعتمد اضافی حصے) کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا درست نہیں.

واللہ اعلم بالصواب

کتبه: عبدالباقی اخونزادہ
جلد دوم صفحہ 168

Comments