شب جمعہ، طاق رات اور لیلة القدر
سلسلہ غیر معتبر روایات نمبر 5
شب جمعہ، طاق رات اور لیلة القدر
تحقیقی جائزہ
سوشل میڈیا پر یہ بات گشت کر رہی ہے کہ:
رمضان کے آخری عشرہ میں جب شب جمعہ اور طارق رات یکجا ہوجائے تو وہی شب اصل میں لیلة القدر ہوگی،چنانچہ آج 22 رمضان 1439 ھ ہے، اور یہ تیئیسویں کی رات بھی ہوگی اور شب جمعہ بھی۔
تحریر پیش ہے:
ابن رجب نے لطائف المعارف میں ابن ھبیرہ کا یہ قول لکھا ہے: جب جمعہ کی رات طاق رات سے آملے تو بہت امید کی جا سکتی ہے کہ یہی شب قدر ہو۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جب جمعہ کی رات آخری عشرہ رمضان کی طاق رات سے آملے تو اس رات کا باذن اللہ زیادہ امکان ہے کہ یہ شب قدر ہو.
_______
اس بابت یہ باتیں قابل تحقیق ہیں :
ابن ہبیرہ کی طرف اس قول کی نسبت درست ہے یا نہیں ؟
امام ابن تیمیہ کی جانب اس قول کی نسبت درست ہے یا نہیں ؟
شب قدر کو کسی خاص رات میں منحصر کر دینا شریعت کے مزاج سے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟
_ اس بات کو ابن رجب نے ابن ہبیرہ کی طرف منسوب کر کے نقل کیا ہے ، دیکھیئے : (لطائف المعارف لابن رجب " (ص/203) .گویا یہ نسبت درست ہے۔
_ یہ قول امام ابن تیمیہ کی طرف بھی منسوب کیا جاتا ہے، مگر بعض عرب اسکالرس کی تحقیق کے مطابق تلاش بسیار کے باوجود ان کے ہاں یہ بات نہیں مل پائی، اس لیئے اس کی نسبت ان کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔
_ احادیث و آثار کے مطابق شب قدر پہلے متعین تھی،مگر اللہ تعالی نے اسے ذہن سے محو کروا دیا ، اسی وجہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تلاش کیا جائے :
عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ : تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنْ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ .
اسی حدیث کے پیش نظر امام نووی نے فرمایا ہے کہ :
"وفيه دليل على إخفاء ليلة القدر ؛ لأن الشيء البيِّن لا يحتاج إلى الْتِماس وتَحَرٍّ "۔
اس حدیث میں شب قدر کے پوشیدہ ہونے کا ثبوت ہے، کیوں کہ جو چیز عیاں اور واضح ہو اس کی تلاش اور جستجو کی کیوں کر ضرورت پیش آسکتی ہے۔
گویا کسی شب کے بارے میں طئے کرلینا کہ "یہی شب قدر ہے" یہ بات شریعت کے مزاج و مذاق سے ہم آہنگ نہیں ہے۔، نیز نصوص اور آثار صحابہ سے اس کی تائید نہیں ہوتی ہے۔
اس بابت علامہ ابن حجر عسقلانی نے یوں خلاصہ کیا ہے :
" لَيْلَةُ الْقَدْرِ مُنْحَصِرَةٌ فِي رَمَضَان ، ثُمَّ فِي الْعَشْر الْأَخِيرِ مِنْهُ ، ثُمَّ فِي أَوْتَارِهِ ، لَا فِي لَيْلَةٍ مِنْهُ بِعَيْنِهَا , وَهَذَا هُوَ الَّذِي يَدُلُّ عَلَيْهِ مَجْمُوع الْأَخْبَار الْوَارِدَة فِيهَا " انتهى من " فتح الباري " (4/260).
ترجمہ : "شب قدر"کا تعلق رمضان، پھر رمضان کے آخری عشرہ اور مزید یہ کہ اس کی طاق راتوں ہی سے ہے، البتہ کسی خاص شب میں وہ متعین نہیں ہے، اس بابت وارد شدہ تمام حدیثیں اسی بات کی تائید کرتے ہیں ۔
■ مذکورہ تفصیل سے حسب ذیل باتیں سمجھ میں آتی ہیں :
● شب قدر کو طاق راتوں میں سے کسی ایک میں محدود کرنا شریعت کے منشاء سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
● کسی خاص تاریخ یا شب سے متعلق قول کو شخصی خیال اور انفرادی رائے سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی ہے۔
● تحقیق کے مطابق امام ابن تیمیہ کی جانب اس قول کی نسبت درست نہیں ہے، ہاں ابن ہبیرہ سے نقل کیا گیا ہے۔
اس موقع پر اس بات کی وضاحت بھی اہم ہے کہ ہر طاق رات کی یکساں اہمیت ہے، اس لیئے خوف و رجا، آہ و زاری اور خشوع و تضرع کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں رجوع ہونا چاہیئے اور دعا و عبادت کا اہتمام کرنا چاہیئے ۔
مفتی عمر عابدین قاسمی مدنی
( استاذ شعبہء حدیث و فقہ المعھد العالی الاسلامی حیدرآباد۔ انڈیا )
=======================
Comments
Post a Comment