حضرت بلال ؓ کا نبی ﷺ کو خواب میں دیکھ کر دمشق سے مدینہ آنا، پھر اذان دینا اور مدینہ والوں کی آہ وبکا۔

 📖 غیر معتبر روایات سلسلہ نمبر 16 📖


حضرت بلال ؓ کا نبی ﷺ کو خواب میں دیکھ کر دمشق سے مدینہ آنا، پھر اذان دینا اور مدینہ والوں کی آہ وبکا۔


✍️ حکم: یہ منکر حکایت ہے، محدثین کی ایک جماعت نے اسے من گھڑت بھی کہا ہے، بہر صورت اسے بیان کرنا درست نہیں ہے۔


▪️ تفصیل:

حافظ ابن عساکر ؒ نے’’تاريخ دمشق‘‘ [1] میں یہ حکایت ’’ابراہیم بن محمد بن سلیمان بن بلال بن ابی الدرداء انصاری ؓ‘‘ کے ترجمہ میں ان الفاظ سے ذکر کی ہے:


’’روى عن أبيه، روى عنه محمد بن الفيض، أنبأنا أبو محمد بن الأكفاني، نا عبد العزيز بن أحمد، أنا تمام بن محمد، نا محمد بن سليمان، نا محمد بن الفيض، نا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء، حدثني أبي محمد بن سليمان، عن أبيه سليمان بن بلال، عن أم الدرداء، عن أبي الدرداء، قال: لما دخل عمر بن الخطاب [الجابية] سأل بلال أن يقدم الشام[كذا فيه، وفي أسد الغابة: أن يقرّه] ففعل ذلك، قال: وأخي أبو رُوَيحة الذي آخى بينه وبيني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فنزل داريَّا في خَوْلان، فأقبل هو وأخوه إلى قوم من خولان، فقال لهم: قد جئناكم [خاطبين]، وقد كنا كافرين، فهدانا الله، ومملوكين، فأعتقنا الله، وفقيرين، فأغنانا الله، فإن تزوجونا فالحمد لله، وإن تردُّونا فلا حول ولا قوة إلا بالله، فزوجوهما.


 ثم إن بلالا رأى في منامه النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول له: ما هذه الجفوة يا بلال ! أما آن لك أن تزورني يا بلال! فانتبه حزينا وَجِلا خائفا، فركب راحلته وقصد المدينة، فأتى قبر النبي صلى الله عليه وسلم، فجعل يبكي عنده ويُمرِّغ وجهه عليه، وأقبل الحسن والحسين فجعل يضمهما ويقبلهما، فقالا له: يا بلال! نشتهي نسمع أذانك الذي كنت تؤذنه لرسول الله صلى الله عليه وسلم في السحر، ففعل، فعلا سطح المسجد، فوقف موقفه الذي كان يقف فيه، فلما أن قال: الله أكبر الله أكبر، ارتجَّت المدينة، فلما أن قال: أشهد أن لا إله إلا الله، زاد تعاجيجها، فلما أن قال: أشهد أن محمدا رسول الله، خرج العواتق من خُدُورِهن فقالوا: أبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فما رئي يوم أكثر باكيا ولا باكية بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك اليوم.

قال أبو الحسن محمد بن الفيض: توفي إبراهيم بن محمد بن سليمان سنة اثنتين وثلاثين ومائتين‘‘ .


▪️ ابودرداء ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب  ؓ جب جابیہ تشریف لائے توحضرت بلال  ؓ نے ان سے اپنے شام میں ٹھہرنے کی درخواست کی ،حضرت عمر  ؓ نے اسے قبول فرمالیا، بلال  ؓ نے کہا کہ میرے بھائی کو بھی اجازت دے دیجئے، میرے اور ان کے درمیان رسول اللہ ﷺ نے بھائی چارہ قائم کیا تھا ، چنانچہ یہ دونوں ’’داریّا‘‘ میں ’’خولان‘‘ نامی مقام پر ٹھہرے، حضرت بلال اور ان کے بھائی ’’خولان‘‘ میں مقیم ایک خاندان کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ ہم آپ کے پاس نکاح کا پیغام لائے ہیں، ہم پہلے حالتِ کفر میں تھے تو اللہ نے ہمیں ہدایت سے سرفراز کیا، ہم غلام تھے ہمیں اللہ نے آزادی کی نعمت سے نوازا، ہم فقیر تھے اللہ نے ہمیں غنی کردیا، سو اب اگر آپ اپنے ہاں ہمارا نکاح کردیں گے تو الحمد اللہ، اگر آپ قبول نہ کریں تو لاحول ولا قوۃ الا باللہ، اس پر انہوں نے ان دونوں کا اپنے ہاں نکاح کر دیا۔


  اس کے بعد بلال  ؓ نے نبی ﷺ کی خواب میں زیارت کی جس میں آپ ﷺ نے بلال  ؓ سے فرمایا کہ اے بلال! یہ کیا جفا ہے؟ اے بلال! کیا اب تک ہم سے ملاقات کا وقت نہیں آیا؟ بیدار ہوئے تو بڑے غمگین اور خوف زدہ ہوئے، پھر سوار ہو کر مدینہ روانہ ہوگئے، نبی ﷺ کی قبر پر پہنچے اور وہاں روپڑے اور اپنا چہرہ قبر مبارک پر ملا، اس دوران حسن  ؓ وحسین  ؓ آگئے، بلال  ؓ نے انہیں اپنے سے چمٹا لیا اور ان کا بوسہ لیا، حضرات حسنین رضی اللہ عنہما  نے کہا کہ اے بلال ! ہم آپ سے آپ کی وہ اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ بوقتِ سحر رسول

اللہ ﷺ کے لیے دیاکرتے تھے، بلال یہ سن کر مسجد کی چھت پر چڑھ گئے، اور وہاں جاکر کھڑے ہوئے جہاں پہلے کھڑے ہوتے تھے، جب انہوں نے اذان میں’’اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘ کہا، تو پورے مدینہ میں آہ وبکاء شروع ہوگئی، جب بلالr نے ’’اشہد ان لا الہ الا اللہ‘‘ کہا تو اس میں اور اضافہ ہوگیا، جب بلال  ؓ نے ’’اشہد ان محمدا رسول اللہ‘‘ کہا تو عورتیں اپنے گھروں سے باہر آگئیں، لوگ کہنے لگے کہ کیا رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے ہیں؟ آپ ﷺ کے بعد اس دن سے زیادہ رونے والے مردوں اور رونے والی عورتوں کو نہیں دیکھا گیا۔

https://chat.whatsapp.com/GQ87wAMiHvmKnwrq3ISSjU 👈

▪️ اس حکایت کو حافظ ابن اثیرl نے ’’أسدالغابة‘‘[2] میں حضرت بلال  ؓ کے ترجمہ میں بلا سند ذکر کیا ہے۔

حافظ ابن حزم ؒ ’’المحلى‘‘[3]  میں فرماتے ہیں:

’’لم يؤذن بلال لأحد بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلا مرة واحدة بالشام للظهر أو العصر فقط، ولم يشفع الأذان فيها أيضا‘‘. بلال  ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کے لیے اذان نہیں دی سوائے ایک مرتبہ کے، جس میں آپ نے ظہر یا عصر کی اذان دی جس میں شفع بھی نہیں کیا ۔


▪️ حافظ تقی الدین سبکی ؒ کا کلام

علامہ ابو الحسن تقی الدین علی بن عبد الکافی سبکی ؒ (المتوفی ۷۵۶ ھ) ’’شفاء السقام‘‘ [4]  میں لکھتے ہیں: ’’روينا ذلك بإسناد جيد، وهو نص في الباب ... ‘‘ . یہ حکایت بسند ِجید ہمیں نقل کی گئی ہے، اور یہ مافی الباب مسئلہ میں بالکل صریح ہے۔۔۔ ‘‘ [5]۔


▪️ علامہ ابن عبد الہادی ؒ ’’الصارم المنکی‘‘[6] میں حافظ تقی الدین سبکی ؒ کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:


’’یہ غریب منکر اثر ہے، اس کی سند مجہول ہے، نیز سند میں انقطاع ہے، محمد بن فیض غسانی، ابراہیم بن محمدبن سلیمان بن بلال عن ابیہ، عن جدہ کی سند سے اسے نقل کرنے میں متفرد ہے، اور یہ شیخ ابراہیم بن محمد ثقہ وامانت میں معروف نہیں ہے، اور نہ ہی ضبط وعدالت میں، بلکہ یہ مجہول، غیر معروف بالنقل ہے، نہ ہی روایات نقل کرنے میں مشہور ہے، نیز اس ابراہیم بن محمد سے صرف محمد بن فیض ہی نے روایت نقل کی ہے، جو ان سے یہ منکر حکایت نقل کرنے والے ہیں۔۔۔ ‘‘[7]۔


▪️ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ  نے ’’لسان الميزان‘‘[8] میں پہلے حافظ ذہبی ؒ کا یہ قول نقل کیا:


’’إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء، فيه جهالة، حدث عنه محمد بن الفيض الغساني، انتهى‘‘. ابراہیم بن محمد بن سلیمان بن بلال بن ابی الدرداء، اس میں جہالت ہے، ان سے محمد بن فیض غسانی نے روایت کی ہے، حافظ ذہبی l کا کلام مکمل ہوا ۔


پھر حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ مزید تحریر فرماتے ہیں:


’’ترجم له بن عساكر، ثم ساق من روايته، عن أبيه، عن جده، عن أم الدرداء، عن أبي الدرداء، في قصة رحيل بلال إلى الشام، وفي قصة مجيئه إلى المدينة وأذانه بها، وارتجاج المدينة بالبكاء لأجل ذلك، وهي قصة بينة الوضع‘‘.


▪️ ابن عساکر ؒ نے ابراہیم بن محمد بن سلیمان بن بلال بن ابی الدرداء کا ترجمہ قائم کیا، پھر عن ابیہ،عن جدہ،عن ام الدرداء، عن ابی الدرداء r کی سند سے یہ قصہ نقل کیا ہے کہ بلال  ؓ شام تشریف لے گئے، پھر مدینہ تشریف لائے اور وہاں اذان دی، ان کی اذان سن کر اہل مدینہ خوب روئے، (حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں ) یہ کھلم کھلا من گھڑت قصہ ہے۔


▪️ حافظ ابن حجر ؒ کے قول کو ملا علی قاری l نے ’’المصنوع‘‘[9] میں اور علامہ سیوطی ؒ نے ’’ذيل اللآلئ‘‘[10] میں یعنی ’’موضوعات ‘‘میں نقل کرنے پر اکتفاء کیا ہے۔

فائدہ: علامہ ابن عرّاق ؒ نے ’’تنزيه الشريعة‘‘[11] میں سند میں موجود راوی ابراہیم بن محمد بن سلیمان بن بلال بن ابی الدرداء کا نام وضاعین میں لکھ کرحافظ ابن حجر عسقلانی ؒ کا کلام نقل کیا ہے ۔


آپ نے’’الفوائد المجموعة‘‘[12] میں اس حکایت کے بارے میں ’’لا أصل له‘‘ . کہا ہے، یعنی اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔


▪️ حافظ ابن عرّاق ؒ ’’تنزيه الشرعية‘‘[13] میں فصل ثالث میں اس حکایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’قال الذهبي في الميزان: فيه جهالة. وقال ابن حجر في اللسان: هذه قصة بينة الوضع‘‘. ذہبی ؒ نے ’’میزان‘‘ میں کہا ہے کہ اس میں جہالت ہے، اور ابن حجر ؒ ’’لسان ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ یہ قصہ کھلم کھلا جھوٹ ہے۔


▪️ حافظ ذہبی ؒ ’’تاریخ الإسلام‘‘[14] میں زیرِ بحث مشہور حکایت نقل کرکے تحریر فرماتے ہیں: ’’إسناده جيد، ما فيه ضعف، لكن إبراهيم مجهول‘‘. اس کی سند جید ہے، اس میں ضعف نہیں ہے، البتہ (سند کا راوی) ابراہیم مجہول ہے۔


نیز حافظ ذہبی ؒ ہی نے ایک دوسرے مقام پر حضرت بلال بن رباح  ؓ کے ترجمہ میں ایک قصہ ان الفاظ سے نقل کیا ہے:


حضرت بلال  ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے انتقال فرمالینے کے بعد کسی کے لیے اذان نہیں دی، اور ایک دفعہ جب ان کا جہاد کا ارادہ ہوا تو حضرت ابو بکر  ؓ نے انہیں روکنا چاہا، حضرت بلال  ؓ نے کہا کہ اگر آپ نے مجھے اللہ کے لیے آزاد کیا تھا تو میرا راستہ نہ روکیے ۔


راوی کہتے ہیں کہ حضرت بلال  ؓ شام میں تھے، حضرت عمر r جب ’’جابیہ‘‘ تشریف لائے تو مسلمانوں نے ان سے درخواست کی کہ بلال  ؓ انہیں اذان سنائے، حضرت عمر  ؓ نے ان سے کہا تو اس دن انہوں نے اذان دی، نبی ﷺ کے زمانے کی اذان کانوں پر پڑ کر اتنے لوگ روئے کہ اس سے زیادہ کسی اور دن میں روتے ہوئے نہیں دیکھے گئے۔


ولید بن مسلم (سند کے راوی) کہتے ہیں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ شام والوں کی اذان اسی دن سے بلال کی اذان ہے۔


(ایک دوسری سند سے یہ الفاظ ہیں) راوی کہتے ہیں کہ ہم حضرت عمر  ؓ کے ساتھ شام میں پہنچے تو بلال  ؓ نے اذان دی، لوگوں کو نبی ﷺ یاد آگئے، اور میں نے اس دن سے زیادہ رونے والے نہیں دیکھے۔


اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد حافظ ذہبی ؒ نے اسی مقام پر زیرِ بحث مشہور حکایت ابو احمد الحاکم عن محمد الفیض کی سند سے نقل کی، روایت کے الفاظ حافظ ابن عساکر  ؒ کے الفاظ جیسے ہیں، ختم حکایت پر حافظ ذہبی ؒ تحریر فرماتے ہیں: ’’إسناده لين، وهو منكر‘‘ .اس کی سند ’’لین‘‘ ہے، اور حکایت منکر ہے۔ 15


 🔘 حکایت کا حکم 


زیرِ بحث حکایت حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ ، امام سیوطی ؒ ،ملاعلی قاری ؒ، علامہ شوکانی  ؒ، علامہ ابن عرّاق ؒ کے نزدیک من گھڑت ہے، اور حافظ ذہبی ؒ نے بھی اسے ’’منکر‘‘ کہا ہے، یعنی اصل قصہ اس کے علاوہ ہے جو اوپر گزرا، یہ مشہور قصہ منکر ہے،اسی طرح علامہ عبد الہادی ؒ نے بھی اسے غریب منکر کہا ہے ، واللہ اعلم۔


الحاصل اس مشہور منکر ومن گھڑت حکایت سے اجتناب ضروری ہے، اور اس کے مقابلہ میں دوسرا شام والا قصہ جو پہلے گذرچکا ہے، صرف اسے بیان کرنا چاہیے۔


حوالہ جات

[1] تاريخ دمشق:۷/ ۱۳۶،ت:عمربن غزامه العمری،دارالفکرـ بیروت،الطبعة۱۴۱۵ هـ .


[2] أسدالغابة:۱/ ۴۱۵ ،رقم:۴۹۳ ،دارالکتب العلمية ـ بيروت،الطبعة الأولى۱۴۱۵هـ .


[3] المحلى:۳/۱۵۲،ت:أحمدمحمد شاكرقاض،إدارة الطباعة المنيريةـ دمشق،الطبعة الأولى ۱۳۴۸هـ .


[4]  شفاءالسقام:۱۸۳،ت:حسين محمد علي شكري،دارالکتب العلميةـ بيروت،الطبعة۱۴۲۹هـ .


 الصارم المنكي:ص:۲۳۰،دارالکتب العلميةـ بيروت،الطبعة الأولى۱۴۰۵هـ .

لسان الميزان:۱ /۳۵۹ ،رقم:۲۹۳،ت:عبدالفتاح أبوغدة،دارالبشائرـ بيروت،الطبعة الأولى۱۴۲۳هـ .


[9] المصنوع:ص:۲۵۷،رقم:۴۵۸،ت:عبد الفتاح أبو غدة،مكتب المطبوعات الإسلاميةـ حلب،الطبعة ۱۴۱۴ هـ .


[10] ذيل اللآلئ المصنوعة:ص:۴۷۸،رقم:۹۱۱،ت:زياد النقشبندي،دارابن حزم ـ بيروت،الطبعة الأولى ۱۴۳۲ هـ .


[11] تنزيه الشريعة:۱/۲۴ ،رقم:۵۹،ت:عبدالوهاب عبد اللطيف،عبدالله محمد صديق،دارالكتب العلميةـ بيروت،الطبعة الثانية۱۴۰۱هـ .


[12] الفوائدالجموعة:۲۱،رقم:۲۶،ت:عبدالرحمن بن يحي المعلي،دارالكتب العلمية ـ بيروت،الطبعة الثانية۱۴۳۰هـ .


[13] تنزيه الشريعة:۲/۱۱۸،رقم:۱۱۳،ت:عبدالوهاب عبد اللطيف،عبدالله محمد صديق،دارالكتب العلميةـ بيروت،الطبعة الثانية۱۴۰۱هـ .


[14] تاریخ الإسلام:۱۷/ ۶۷،رقم:۳۷ ،ت:عمرعبدالسلام تدمری،دارالكتاب العربي ـ بيروت،الطبعة۱۴۰۷ هـ .


[15]  سيرأعلام النبلاء:۱/ ۳۵۷،ت:شعيب الأرنؤوط،مؤسسة الرسالةـ بيروت،الطبعة۱۴۰۲هـ .


👈 (غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ  جلد سوم 55)

👈 ( تنبیہات: تنبیہ نمبر 276)

Comments