داعی کے ہر بول پر ایک سال کی عبادت کا اجر

 🔲 غیر معتبر روایات سلسلہ نمبر 47 🔲

 

داعی کے ہر بول پر ایک سال کی عبادت کا اجر


▪️ روایت:

 ’’اللہ تعالیٰ داعی کو ہر بول پر ایک سال کی عبادت کا اجر عطاء فرمائیں گے‘‘۔


مذکورہ روایت کو حجۃ الاسلام علامہ غزالی ؒ نے ’’مکاشفة القلوب‘‘[1] میں اس طرح ذکر کیاہے :


’’قال موسى: یا رب ! ماجزاء من دعا أخاه وأمره بالمعروف ونهاه عن المنکر؟ قال: أکتب له بکل کلمة عبادة سنة، وأستحی أن أعذبه بناری‘‘ .


موسی علیہ السلام  نے کہا: اے رب !اس شخص کی کیا جزا ء ہوگی جو اپنے بھائی کو بھلائی کی طرف بلائے اور برائی سے روکے،الله تعالیٰ نے فرمایا:میں اس کے ہرلفظ کے بدلے ایک سال کی عبادت لکھ دوں گا، اور مجھے اس بات سے حیا آتی ہے کہ اسے اپنی آگ سے عذاب دوں۔



🌀 روایت کا حکم

مذکورہ روایت مرفوعاً(آپ ﷺ کا قول) سند کے ساتھ ہمیں کہیں نہیں مل سکی،چنانچہ اس روایت کو آپ ﷺ کے انتساب سے بیان کرنا درست نہیں ہے،البتہ بظاہر اسرائیلی روایت ہونے کی بناء پر اسے اسرائیلی روایت کہہ کر بیان کیا جاسکتا ہے۔


مذکورہ روایت کے مضمون پر مشتمل ایک طویل روایت حافظ ابو نعیم اصبہانی ؒ نے ’’حلیة الأولیاء‘‘ میں ذکر کی ہے،وہ روایت بھی نبی اکرمﷺ سے مرفوعاً منقول نہیں ہے،البتہ اسرائیلی روایت ہے،جسے اسرائیلی روایت کہہ کر بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔


▪️ روایت

’’حدثنا أبو بكر أحمد بن السندي، ثنا الحسن بن علوية القطان، ثنا إسماعيل بن عيسى العطار، ثنا إسحاق بن بشر القرشي أبو حذيفة، عن سعيد، عن قتادة، عن كعب قال: قال موسى عليه السلام حين ناجاه ربه تعالى .... قال: إلهي! فما جزاء من دعا نفسا كافرة إلى الإسلام؟ قال: يا موسى ! أجعل له حكما يوم القيامة في الشفاعة، قال: إلهي! فما جزاء من دعا نفسا مؤمنة إلى طاعتك ونهاها عن معصيتك، قال: يا موسى ! هو يوم القيامة في زمرة المرسلين ... ‘‘[2].


ترجمہ:  ’’موسی علیہ السلام  نے کہاجب کہ وہ اپنے رب سے مناجات میں مصروف تھے: ... اے رب! اس شخص کی کیا جزاء ہو گی ہوجوکسی کافر شخص کو اسلام کی طرف بلائے ؟ فرمایا: اے موسیٰ! میں اسے روزِ قیامت شفاعت کا اہل بنادوں گا،کہا: اے رب! اس شخص کیا جزاء ہو گی جو کسی مؤمن کوآپ کی طاعت کی طرف بلائے اور آپ کی معصیت سے روکے؟ فرمایا: اے موسی ! قیامت کے دن وہ مرسلین کی جماعت میں سے ہوگا ...‘‘۔



(غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ جلد دوم 369)

〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️

Comments