اللہ کے راستے میں نکلنے پر پانچ سو (۵۰۰) فرشتوں کی حفاظت

 🔲 غیر معتبر روایات سلسلہ نمبر 40 🔲


اللہ کے راستے میں نکلنے پر پانچ سو (۵۰۰) فرشتوں کی حفاظت


▪️روایت:

    ”جو شخص اللہ کے راستے میں نکلتا ہے اس کے گھر کی حفاظت کے لئے پانچ سو (۵۰۰) فر شتے مامور ہو جاتے ہیں“۔


               ✍️ روایت کا حکم


      تلاش بسیار کے باوجود یہ روایت سندًا تاحال ہمیں کہیں نہیں مل سکی، اور جب تک اس کی کوئی معتبر سند نہ ملے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے انتساب سے  بیان کرنا موقوف رکھا جائے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب صرف ایسا کلام و واقعہ ہی منسوب کیا جاسکتا ہے جو معتبر سند سے ثابت ہو ، واللہ اعلم۔


▪️   مذکورہ روایت کے مضمون جیسی ایک دوسری روایت امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے ”المعجم الكبير» [1] میں ذکر کی ہے، اسے بیان کرنے میں حرج نہیں ہے


▪️روایت:

        "حدثنا بكر بن سهل، ثنا عمرو بن هاشم البيروتي، عن الأوزاعي، حدثني سليمان بن حبيب المحاربي، عن أبي أمامة الباهلي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ثلاث من كان فيها واحدة منهن كان ضامنا على الله عز وجل: من خرج في سبيل الله كان ضامنا على الله، إن توفاه أدخله الجنة، وإن رده إلى أهله فبما نال من أجر أو غنيمة، ورجل كان في المسجد فهو ضامن على الله، إن توفاه أدخله الجنة، وإن رده إلى أهله فبما نال من أجر أو غنيمة، ورجل دخل بيته بسلام فهو ضامن على الله عز وجل".

ترجمہ: حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین چیزوں میں سے ایک چیز جس شخص میں ہو گی وہ اللہ کے ضمان (ذمہ داری) میں ہوگا:  جو شخص اللہ کے راستے میں نکلے گا وہ اللہ کے ضمان میں ہے، اگر وہ وفات پاجائے تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا، اگر اللہ اسے اپنے اہل و عیال کے پاس لوٹائے تو اجر یا غنیمت کے ساتھ لوٹائے گا، جو شخص مسجد میں ہو گا وہ اللہ کے ضمان میں ہے، اگر وہ وفات پا جائے تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا، اگر اللہ اسے اپنے اہل و عیال کے پاس لوٹائے تواجر یا غنیمت کے ساتھ لوٹائے گا، جو شخص اپنے گھر میں سلام کر کے داخل ہو وہ اللہ کے ضمان میں ہے۔


▪️ حافظ نور الدین ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ روایت کو تفصیل سے لکھنے کے بعد فرماتے ہیں:


  رواه الطبراني في الأوسط والكبير بنحوه باختصار، والبزار، ورجال أحمد رجال الصحيح غير ابن لهيعة، وحديثه حسن على ضعفه له۔[2]  

اس روایت کو امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے اوسط“ اور ” کبیر" میں اسی طرح اختصار کے ساتھ روایت کیا ہے، اور امام بزار رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی اس کی تخریج کی ہے، اور مسند احمد کے رجال، صحیح کے رجال ہیں سوائے ابن لہیعہ کے ، اور ابن لہیعہ کی حدیث ، ضعف کے باوجود حسن درجے کی ہے۔


📚 حوالہ جات

[1]  المعجم الكبير:۸/ ۱۱۸، رقم: ۷۴۹۱، مکتبةابن تیمیة- مصر، ط: ۱۴۰۴هـ  .

[2]  مجمع الزوائد:۱۰/ ۵۴۸، رقم:۱۸۱۹۲، ت: عبدالله محمد درويش، دار الفكر– بيروت، ط: ۱۴۱۲ هـ.


🔘غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ🔘   

Comments