یک دن حضرت جبرئیل علیہ السّلام دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا

 🔲 غیر معتبر روایات سلسلہ نمبر 50 🔲

 

سوال: ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ:


ایک دن حضرت جبرئیل علیہ السّلام دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے ایک عجیب و غریب واقعہ دیکھا ہے۔  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:  “وہ واقعہ کیا ہے؟”  جبرئیل علیہ السّلام نے عرض کی: “یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے کوہ قاف جانے کا اِتفاق ہُوا، مجھے وہاں آہ اور فُغاں رونے چِلّانے کی آوازیں سُنائی دیں۔ جدھر سے آوازیں آرہی تھیں میں اُدھر کو گیا تو مجھے ایک فرشتہ دِکھائی دیا جس کو میں نے اس سے پہلے آسمان پر دیکھا جو کہ اس وقت بڑے اعزاز و اکرام سے رہتا تھا۔ وہ ایک نُورانی تخت پر بیٹھا رہتا، ستّر ہزار فرشتے اس کے گِرد صف بستہ کھڑے رہتے تھے۔ وہ فرشتہ سانس لیتا تو اللہ تعالیٰ اس کے سانس کے بدلے ایک فرشتہ پیدا کردیتا تھا۔ لیکن آج میں نے اسی فرشتے کو کوہ قاف کی وادی میں سرگرداں و پریشان آہ و زاری کَنِندہ دیکھا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا:  کیا حال ہے اور کیا ہوگیا ہے؟  اس نے بتایا کہ معراج کی رات جب میں اپنے نُورانی تخت پر بیٹھا تھا،  میرے قریب سے اللہ تعالیٰ کے حبیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گُذرے تو میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی تعظیم و تکریم کی پرواہ نہ کی۔  اللہ تعالیٰ کو میری یہ ادا،  یہ بڑائی پسند نہ آئی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ذلیل کر کے نِکال دیا۔  پِھر اس نے کہا: اے جبرئیل علیہ السّلام!  اللہ کے دربار میں میری سفارش کردو کہ اللہ تعالیٰ میری اس غلطی کو معاف فرمائے اور مجھے بحال کردے۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم! میں نے اللہ تعالیٰ کے دربارِ بےنیاز میں نہایت عاجزی کے ساتھ معافی کی درخواست کی۔  دربارِاِلٰہی سے اِرشاد ہُوا:  اے جبرئیل علیہ السّلام! اس فرشتے کو بتادو کہ اگر یہ معافی چاہتا ہے تو میرے نبی صلی اللہ علیہ وآله وسلم پر درود پاک پڑھے۔  یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم! جب میں نے اس فرشتے کو فرمانِ اِلٰہی سُنایا تو وہ سُنتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وآله وسلم کی ذاتِ گرامی پر درود پاک پڑھنے میں مشغول ہوگیا اور پِھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس کے بال و پر نِکلنا شروع ہوگئے اور پِھر وہ ذِلّت و پستی سے اُڑ کر آسمان کی بُلندیوں میں جا پہنچا اور اپنی مسند (یعنی تخت) پر براجمان (یعنی تشریف رکھ لی) ہوگیا. (معارج النبوۃ، جِلد:۱، صفحہ: ۳۱۷). کیا یہ روایت درست ہے؟


▪️الجواب باسمه تعالی


واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بات کو منسوب کرنے کیلئے اس بات کا سند کے لحاظ سے درست ہونا لازمی ہے،  ورنہ خود آپ علیہ السلام نے اپنی طرف جھوٹ کو منسوب کرنے والوں کو جہنم کی خبر سنائی ہے کہ میری طرف جھوٹ کو منسوب کرنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے.


مذکورہ روایت کسی بھی مستند یا ضعیف سند سے کہیں بھی منقول نہیں اور اس روایت کے الفاظ خود ہی اس کے جھوٹے ہونے پر دلالت کررہے ہیں


✍ ️خلاصہ کلام

حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درودشریف کا پڑھنا ایسا عمل ہے کہ اس کی ترغیب قرآن مجید میں ذکر کی گئی ہے، لہذا اس عمل کی فضیلت کو کسی من گھڑت واقعے سے ثابت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں.


اللہ تعالی ایسے تمام افراد کو ہدایت نصیب فرمائے اور امت کو اس عظیم گناہ (یعنی من گھڑت روایات بنانے اور سنانے) سے محفوظ فرمائے.

واللہ اعلم بالصواب


کتبہ: مفتی عبدالباقی اخونزادہ

٧ ذوالحجة ١٤٣٩

Comments