آپ ﷺ کا وصال سے قبل اپنی ذات پر قصاص اور بدلہ دلوانا

 🔲 غیر معتبر روایات سلسلہ نمبر 43 🔲



 آپ ﷺ کا وصال سے قبل اپنی ذات پر قصاص اور بدلہ دلوانا


     🥀تحقیق کا اجمالی خاکہ🥀


 ① مصادر اصلیہ سے حدیث کی تخریج

 ② روایت پر ائمہ حدیث کا کلام 

 ③ متہم راوی پر ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال

 ④ گزشتہ تفصیلات سے ماخوذ روایت کا حکم


 🔹مصادر اصلیہ سے روایت کی تخریج


      امام سلیمان بن احمد الطبرانی ( ٣٦٠ ھ ) "المعجم الکبیر" میں لکھتے ہیں:


"حدثنا محمد بن احمد بن البراء، ثنا عبد المنعم بن ادريس بن سنان، عن ابيه، عن وهب بن منبه، عن جابر بن عبد الله، رضي الله عنه و عبد الله بن عباس رضي الله عنه في قول الله عز وجل { اذا جاء نصر الله و الفتح... } " 

"المعجم الكبير" کی مذکورہ روایت پانچ سے زائد صفحات پر مشتمل ہے، ہم یہاں واقعہ کو اختصارا ذکر کریں گے۔

 جب سورۃ {اذا جاء نصراللہ والفتح }نازل ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار کو مسجد میں جمع فرمایا، اور خطبہ ارشاد فرمایا، پھر کچھ گفتگو کرنے کے بعد فرمایا:


" انا انشدكم بالله وبحقي عليكم، من كانت له قبلي مظلمة فليقم، فليقتص مني قبل القصاص في القيامة "_


▪️میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں، اور تمہیں میرے حق کا واسطہ ہے کہ جس شخص پر میں نے کوئی زیادتی کی ہو، تو قیامت میں قصاص لینے سے پہلے ابھی آکر اپنا بدلہ مجھ سے لے_

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا، اخر ایک بڑھا شخص جسے عکاشہ  کہا جاتا تھا، اٹھ کر سامنے آیا اور کہا کہ اگر آپ بار بار یہ بات نہ فرماتے، تو میں اس کام کی جرات نہیں کرتا، پھر اس نے اپنا قصہ بیان کیا کہ ایک غزوہ سے واپسی پر میری اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچی، تو میں نیچے اتر گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران پر بوسہ لینے کے لیے آپ صلی اللہ الہی وسلّم کے قریب ہوا، آپ صل للہ علیہ وسلم نے ایک چھڑی اٹھا کر میرے پہلو میں چبھودی، نہ جانے آپ نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا یا آپ اونٹنی کو مارنا چاہتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" اعيذك بجلال الله ان يتعمدك رسول الله صلي الله غليه وسلم بالضرب "  

   میں تمہیں اس بات سے اللہ کی پناہ دیتا ہوں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں جان بوجھ کر ماریں،

 پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  اے بلال جاؤ اور فاطمہ سے پتلی لمبی چھڑی لےاؤ، حضرت بلال سر پر ہاتھ رکھے، یہ واویلا کرتے ہوئے گئے : 

" ھذا رسول اللہ یعطی القصاص من نفسہ " یہ اللہ کے رسول اپنے پر قصاص دلوآنا چاہتے ہیں، جب حضرت بلال نے حضرت فاطمہ سے پتلی لمبی چھڑی مانگی، تو حضرت فاطمہ فرمانے لگیں کہ میرے والد کو چھڑی سے کیا کام؟ نہ تو یہ حج کے ایام ہیں، اور نہ تو یہ کسی غزوہ کا موقع ہے ، حضرت بلال نے عرض کیا:  آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس چھڑی سے اپنے پر قصاص دلوانا چاہتے ہیں،

 حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:

 یہ کون شخص ہے، جو آپ صل اللہ علیہ وسلم سے قصاص لینا چاہ رہا ہے ، آے بلال! حسین سے کہو، اس شخص سے کہ دیں کہ ہم سے بدلہ لے لو، مگر  اسے حضور صلی اللہ وعلی وسلم سے قصاص نہیں لینے دینا،

https://chat.whatsapp.com/C6B4ssL3j243YxDoypEnDA

 حضرت بلال نے مسجد آکر چھڑی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردی، اپنے چھڑی عکاشہ کو تھما دی، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے جب یہ منظر دیکھا، تو عکاشہ سے کہا: ہم تمہارے سامنے حاضر ہیں، ہم سے بدلہ لے لو، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قصاص مت لو ، 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے شاد فرمایا :

" امض یا ابا بکر ! وانت یا عمر! فامض عرف اللہ مکانکما و مقامکما "_

 اے ابوبکر! جانے دو، اور اے عمر! تم بھی جانے دو، اللہ تعالی تم دونوں کا مرتبہ اور مقام پہچان چکے ہیں،


پھر حضرت علی بن ابی طالب کھڑے ہوگئے، اور کہا :  کہ اے عکاشہ!  میری پیٹھ اور پیٹ حاضر ہیں، چاہے بدلے میں سو چھڑیا مارلو، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قصاص مت لو،

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 

" يا علي ! اقعد فقد عرف الله عز وجل مقامك و نيتك " اے علی ! بیٹھ جاؤ، اللہ تعالی نے تمہارے مقام اور نیت کو پہچان لیا ہے، پھر حضرت حسن اور حضرت حسین ؓ کھڑے ہو گئیں، اور کہا: اے عکاشہ !  ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں ، ہم سے قصاص لینا ایسا ہی ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قصاص لینا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات حسنین سے فرمایا : 

" اقعدا یا قرة عيني !لا نسي الله لكما هذا المقام " 

اے میری انکھوں کی ٹھنڈک ! تم بیٹھ جاؤ ، اللہ تعالی نے تمہارے اس مقام کو فراموش نہیں فرمایا ،_

 پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے عکاشہ!  مارنا چاہتے ہو تو مارو ، عکاشہ نے کہا : یا رسول اللہ ! اس وقت میرا پیٹ برھنہ تھا ،


چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے پیٹ مبارک سے کپڑا ہٹا لیا ، مسلمانوں کی چیخیں بلند ہوگئ ، اور کہنے لگے : دیکھو تو ! کیا عکاشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنا چاہتا ہے؟ جب عکاشہ کی نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برہنہ پیٹ پر پڑی ، تو لپک کر آپ کے پیٹ کا بوسہ لیا ، اور کہا : کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ، کس کا جی چاہے گا کہ آپ سے بدلہ لے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : 

" اما ان تضرب ، واما ان تعفو " _

یاتوں مارو اور یا معاف کردو _

پھر عکاشہ نے کہا : کہ میں آپ کو اس امید پر معاف کرتا ہوں ، کہ اللہ تعالیٰ روز قیامت مجھے بھی معاف کردے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : 

" من اراد ان ینظر الی رفيقي ، فلينظر الي هذا الشيخ ، 

جو شخص جنت میں میرے ساتھی کو دیکھنا چاہے تو وہ اس بوڑھے شخص کو دیکھ لے ، چنانچہ لوگوں نے کھڑے ہوکر عکاشہ کی پیشانی پر بوسہ دینا شروع کردیا اور انہیں مبارکباد دی _

اس کے بعد اس روایت میں دیگر مضامین بھی تفصیل سے ذکر کیے گئے ہیں _


▪️ امام ابو نعیم اصبہانی (٤٣٠ ھ ) نے "حلیۃ الاولیاء" میں امام طبرانی سے ان کی سند کے مطابق اس روایت کی تخریج کی ہے۔


⚛ روایت پر ائمہ حدیث کا کلام ⚛


 متقدمین و متاخرین ائمہ حدیث نے " المعجم الکبیر " کی زیر بحث روایت کا فنی مقام ان کتب میں ذکر کیا ہے _


『۱』 " کتاب الموضوعات " تالیف حافظ ابن جوزی ( ٥٩٧ ھ )

 『۲』 " مجمع الزوائد ومنبع الفوائد " تالیف حافظ نورالدبن ہیثمی ( ٨٠٧ ھ )

 『۳』 " اللألی المصنوعہ فی الاحادیث الموضوعہ " تالیف علامہ جلال الدین سیوطی (٩١١ ھ )

『۴』 " تنزیہ الشریعۃ المرفوعہ عن الاحادیث الموضوعہ " تالیف علامہ ابن عراق ( ٩٦٣ ھ )

 『۵』 " الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ " تالیف علامہ عبدالحی لکھنوی ( ١٣٠٤ ھ ) 


 🌷ذیل میں ان محدثین کرام کا کلام تفصیل سے لکھا جائے گا🌷


【۱】 حافظ ابن جوزی کا کلام:


 🔹حافظ ابن جوزی (597ھ) رقمطراز  ہیں:


" هذا حديث موضوع محال کافأ الله من وضعه و قبح من يشين الشريعة بمثل هذا التخليط البارد، و الكلام الذي لا يليق بالرسول صلى الله عليه و سلم ولا بالصحابه رضي الله عنهم، و المتهم به عبد المنعم بن ادريس ، قال احمد ابن حنبل : كان يكذب على وهب و قال يحيى : كذاب، خبيث ، وقال ابن المديني و ابو داود ليث بثقة، و قال ابن حبان لا يحل الاحتجاج به ، و قال الدارقطني : هو و ابوه متروكان"_


یہ موضوع اور محال روایت ہے اللہ تعالیٰ اس کے گھڑنے والے کو اس کی سزا دے، اور اللہ اس شخص کا برا کرے جو شریعت کو ایسی سرد ( بے بنیاد ) ملاوٹوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان سے بعید باتیں لاکر عیب دار بنائے_  اس حدیث میں عبد المنعم بن ادریس متہم ہے_

 امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں : عبدالمنعم وہب پر جھوٹ بولتا تھا _

یحییٰ فرماتے ہیں : وہ کذاب خبیث شخص ہے 

ابن المدینی اور ابوداؤد نے عبدالمنعم کو " لیس بثقة " (جراح) کہا ہے_

 ابن حبان فرماتے ہیں : عبدالمنعم سے احتجاج جائز نہیں ہے_

 دارقطنی فرماتے ہیں : عبد المنعم اور اس کے والد دونوں "متروک" (شدید جرح ) ہے 


【۲】 حافظ نورالدین ہیثمی کا کلام


 حافظ نورالدین ہیثمی (٨٠٧ ھ )لکھتے ہیں:

" رواه الطبراني، وفيه : عبد المنعم بن ادريس ، و هو كذاب ، وضاع، "_

طبرانی نے اسے روایت کیا ہے، اور سند میں عبد المنعم بن ادریس ہے، جو کذاب ( جھوٹا ) روایت گھڑنے والا ہے _


【۳】 علامہ جلال الدین سیوطی کا کلام :

 امام سیوطی تحریر فرماتے ہیں :

 "موضوع ، آفتہ عبدالمنعم "

یہ من گھڑت روایت ہے ، اس میں عبدالمنعم آفت ( کلمہ جرح ) ہے _


 【۴】 علامہ ابن عراق کا کلام :


علامہ ابن عراق ( ٩٦٣ ھ ) لکھتے ہیں: 

" (نع) في " الحلية " من طريق عبد المنعم بن ادريس ، وهو المتهم به " 

 ابو نعیم الاصبہانی نے یہ روایت " حلیۃ الاولیاء " میں عبد المنعم بن ادریس کی سند سے تخریج کی ہے او وہی عبدالمنان اس میں بتا نہیں نمبر 5 علامہ عبدالمنعم

اسمیں متہم ہے_


【۵】 علامہ عبدالحی لکھنوی کا کلام:


 علامہ لکھنوی ( ١٣٠٤ ھ ) لکھتے ہیں:

" الحديث المذكور بتمامہ هي في كتاب الموضوعات لابن الجوزي ، قال ابن الجوزي : هذا موضوع ، وافته عبد المنعم ، انتہی _ ای عبد المنعم ادريس بن سنان الراوي عن ابیہ ،عن وهب ، وعنه محمد بن احمد بن البراء ، وعنه سليمان بن احمد الطبراني ، وعنه ابو نعيم ، و اقره عليه السيوطي في " الآلي المصنوعه في الاحاديث الموضوعه " و ابن عراق في " تنزيه الشريعه " عن  الاحاديث الموضوعه...." 

مذکورہ حدیث مکمل کتاب " الموضوعات لابن الجوزی " میں موجود ہے ، ابن جوزی فرماتے ہیں کی موضوع روایت ہے اور اس میں عبدالمنعم افت ہے ....."


🔹روایت پر محدثین کا کلام


 سابقہ نصوص کا حاصل یہ ہے کہ حافظ ابن جوزی، حافظ ہیثمی ، علامہ سیوطی ، علامہ ابن عراق ، علامہ عبد الحی لکھنوی، ان سب محدثین ے کرام کے نزدیک یہ من گھڑت روایت ہے ،


اور سند میں مذکور عبدالمنعم بن ادریس نے اس کو گھڑا ہے ، اب ذیل میں مذکورہ روایت سے قطع نظر ، عبدالمنعم کےبارے میں ائمہ رجال کے اقوال پیش کئے جائیں گے ، تاکہ ائمہ رجال کے اقوال کی روشنی میں بھی روایت کا جائزہ لیا جا سکے ،_


🔹عبد المنعم بن ادریس بن سنان بن کلیب ( ٢٢٨ ھ ) کے بارے آئمہ جرح و تعدیل کے اقوال


 حافظ شمس الدین ذہبی ( ٧٤٨ ھ ) " میزان الاعتدال " میں لکھتے ہیں:

" مشهور قصاص، ليس يعتمد عليه ، تركه غير واحد ، وافصح احمد ابن حنبل ، فقال : كان يكذب على وهب بن منبه ، و قال البخاري : ذاهب الحديث ...، و قال ابن حبان : يضع الحديث على ابيه و على غيره"_

یہ مشہور قصہ گو ہے ، غیر معتمد شخص ہے ، کئ محدثین نے اسے ترک کیا ہے ، امام احمد بن حنبل نے عبدالمنعم کے بارے میں صاف کہا ہیں : کہ وہ وہب بن منبہ پر جھوٹ بولتا تھا ، اور امام بخاری نے اسے "ذاھب الحدیث" ( کلمہ جراح ) کہا ہے ،.... ابن حبان فرماتے ہیں : عبدالمنعم اپنے والد اور ان کے علاوہ دوسروں پر احادیث گھڑتا تھا _


حافظ ابن حجر عسقلانی ( ٨٥٢ ھ ) " لسان المیزان " میں لکھتے ہیں :

" نقل ابن ابي حاتم ، عن اسماعيل بن عبد الكريم ، مات ادريس ، و عبد المنعم رضيع ، وكذا قال احمد ، اذا سئل عنه : لم يسمع من ابيه شيئا ، وقال عبد الخالق بن منصور ، عن ابن معين : الكذاب الخبيث ، قيل له : يا ابا زكريا ! بم عرفته ؟ قال : حدثني شيخ صدق ،انه رآٓه في زمن ابي جعفر يطلب هذه الكتب من الوراقين ، وهو اليوم يدعيها ، فقيل له : انه يروي عن معمر ، فقال : كذاب_

 وقال الفلاس : متروك " اخذ كتب ابيه ، فحدث بها ، ولم يسمع من ابيه شيئا ، وقال البرذعي : عن ابي زرعه : واهي الحديث ، و قال ابو احمد الحاكم : ذاهب الحديث ، وقال ابن المديني : ليس بثقه ، اخذ كتبا فرواها ، و قال النسائي : ليس بثقة، و قال الساجي : كان يشتري كتب السيرة ،فيرويها ، ما سمعها من ابيه ، ولا بعضها "_

ابن ابی حاتم نے اسماعیل بن عبدالکریم سے نقل کیا ہے : کہ عبد المنعم کے والد ادریس کا انتقال عبدالمنعم کی شیرخوارگی کی حالت میں ہوا تھا ، یہی بات احمد نے بھی کہی ہے : جب ان سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا : عبدالمنعم نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا _

عبدالخالق بن منصور ، ابن معین سے نقل کرتے ہیں : کہ عبدالمنعم کذاب خبیث ہے، جب ان سے پوچھا گیا آپ نے اسے کیسے پہچان لیا ؟ ابن معین نے کہا : مجھے ایک سچے شیخ نے کہا تھا : کہ میں نے عبدالمنعم کو ابو جعفر کے زمانے میں کتب فروشوں سے کتاب طلب کرتے دیکھا تھا ، آج انہیں کتابوں کا وہ دعوےدار ہیں ، پھر ابن معین سے کہا گیا : کہ وہ معمر سے روایت نقل کرتا ہے ، ابن معین نے کہا : وہ جھوٹا ہے _

فلاس فرماتے ہیں : کہ عبدالمنعم " متروک " ( شدید جرح ) ہے ، اپنے والد کی کتابیں لے کر ان سے حدیث بیان کرنا شروع کردی ، حالانکہ  اس نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا_

 برذعی نے ابو زرعہ سے نقل کیا ہے : کہ عبدالمنعم " واہی الحدیث " (کلمہ جرح ) ہے _

 ابواحمد خاکم نے اسے  "ذاھب الحدیث"  ( کلمہ جرح ) کہا ہے_

 ابن مدینی فرماتے ہیں : عبدالمنعم ثقہ نہیں ہے ، کتابیں لے کر اس میں سے احادیث بیان کرنا شروع کردیں ،

 ساجی فرماتے ہیں : عبدالمنعم سیرت کی کتابیں خرید کر ان سے روایت بیان کرتا تھا ، ان روایتوں کو اس نے اپنے والد سے نہیں سنا ، حتی کہ بعض حدیثیں بھی نہیں سنیں،


🌷 ائمہ رجال کے اقوال کا خلاصہ🌷


 امام احمد بن حنبل ، امام یحییٰ بن معین ، حافظ ابن حبان ، امام ابوزرعہ ، حافظ دارقطنی ، حافظ فلاس ، حافظ ابن جوزی ، علامہ سیوطی ، حافظ ہیثمی ، حافظ ذہبی ، حافظ ابن عراق ، ان سب محدثین کرام نے عبد المنعم بن ادریس کے بارے میں جراح کے شدید ترین جملے استعمال فرمائے ہیں ،


  بہرحال ائمہ رجال کے ان اقوال کی روشنی میں زیر بحث روایت کا باطل ہونا ایک واضح امر ہے۔


🌷 دو اہم نکات 🌷


محدثین عظام کا سابقہ تفصیلی کلام ہی اس روایت کو باطل اور من گھڑت کہلانے کے لیے کافی ہے ، البتہ دو اہم نکات اس حدیث سے خاص تعلق رکھتے ہیں ، جن کی موجودگی اس روایت کے من گھڑت ہونے کو اور بھی مئکد کر دیتی ہے _

① ...امام احمد بن حنبل ، حافظ ابن حبان ، اور علامہ ساجی نے صاف لفظوں میں یہ بات بیان کی ہے : کہ عبدالمنعم نے اپنے والد سے حدیث کی سماعت نہیں کی ، اور وہ والد کی طرف منسوب کرکے احادیث گھڑتا تھا ، واضح رہے کہ عبدالمنعم زیر بحث حدیث میں اپنے والد سے ہی روایت نقل کر رہا ہے ،

 ② دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مناقب پر مشتمل ہے ، اور علامہ ساجی کی تصریح کے مطابق عبدالمنعم سیرت کی کتابیں خرید کر ان سے روایتیں گھڑتا تھا_


         🌐 روایت کا فنی حکم


 ائمہ حدیث کی تصریحات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے ، کہ یہ روایت من گھڑت ہے ، لہذا اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کرکے بیان کرنا قطعا جائز نہیں ،  واضح رہے کہ یہ قصہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ سے بدر کے دن صف درست کرتے ہوئے ایک صحابی سَوّاد بن غَزیّہ کے پیٹ میں چھڑی چب گئی تھی ، سواد بن غزیہ کے مطالبہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹ سے کپڑا ہٹا دیا ، سواد بن غزیہ ؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن سے چمٹ گئے ، آپ نے خوش ہو کر بھلائی کی دعا دی،

( الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب )


{غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ جلد 1 ص 100}*

Comments