إنا أنزلناه فى ليلة القدر‘‘پڑھنے كے مختلف فضائل
🔲 غیر معتبر روایات سلسلہ نمبر 37 🔲
وضوء کے بعد: ’’ إنا أنزلناه فى ليلة القدر‘‘پڑھنے كے مختلف فضائل
حکم: آپﷺ سے ثابت نہیں، بیان نہیں کرسکتے۔
▪️ روایت: ’’ من قرأ في إثر وضوئه: إنا أنزلناه في ليلة القدر. مرة واحدة كان من الصديقين، ومن قرأها مرتين كان فی ديوان الشهداء، ومن قرأها ثلاثا حشره الله محشر الأنبياء‘‘.
ترجمہ: نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:جوشخص وضوء کے بعد : ’’إنا أنزلناه في ليلة القدر‘‘ ایک مرتبہ پڑھے گا،وہ صدیقین میں شمار ہوگا،اور جو دومرتبہ پڑھ لے،اسے شہداء کی فہرست میں لکھا جائے گا،اور جوتین مرتبہ پڑھ لے،اللہ تعالی نبیوں کےساتھ اس کاحشر فرمائیں گے۔
اس حدیث کی تحقیق چار (۴) اجزاء پر مشتمل ہے:
1: روایت کا مصدر ِاصلی
2: روایت کے بارے میں ائمہ حدیث کا کلام
3: ائمہ حدیث کے اقوال کا خلاصہ اور روایت کا حکم
4: اہم نوٹ
▪️یہ روایت دیلمی ؒ کی ’’مسند الفردوس‘‘ میں حضرت انس ؓ سے مرفوعاً (آپﷺ کا قول) مروی ہے، چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی ؒ ’’الحاوی للفتاوِي‘‘[1] میں لکھتے ہیں:
’’روى الديلمي في مسند الفردوس من طريق أبي عبيدة، عن الحسن، عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قرأ في أثر[2] وضوئه إنا أنزلناه في ليلة القدر مرة واحدة كان من الصديقين، ومن قرأها مرتين كتب في ديوان الشهداء، ومن قرأها ثلاثا حشره الله محشر الأنبياء.وأبو عبيدة مجهول‘‘ .
ترجمہ: آپ ﷺ کا ارشادہے: جوشخص وضوء کے بعد: ’’ إنا أنزلناه في ليلة القدر‘‘ ایک مرتبہ پڑھے گا،وہ صدیقین میں شمار ہوگا،اور جو دومرتبہ پڑھ لے،اسے شہداء کی فہرست میں لکھا جائے گا،اور جوتین مرتبہ پڑھ لے،اللہ تعالیٰ نبیوں کےساتھ اس کاحشر فرمائیں گے۔اس سند میں ابو عبید مجہول راوی ہے۔
▪️حافظ ابن حجر ہیتمی ؒ نے بھی’’الفتاوى الفقهية الكبرى‘‘[3] میں مذکورہ روایت نقل کر کے لکھا ہے: ’’رواه الديلمي وفي سنده مجهول‘‘. یہ روایت دیلمی ؒ نے تخریج کی ہے، اور اس کی سند میں ایک مجہول راوی ہے۔
▪️علامہ صفوری شافعی ؒ (المتوفی: ۸۹۴ھ)نے’’نزهة المجالس‘‘[4] میں یہ حدیث نقل کی ہے،لیکن فضیلت مختلف ہے ،موصوف رقمطراز ہیں:
’’ وأن يقرأ أيضا إنا أنزلناه في ليلة القدر‘‘ لما ورد في الحديث: من قرأ إنا أنزلناه في ليلة القدر عقب وضوئه غفر له ذنوب أربعين سنة ‘‘.
ترجمہ: وضوء کرنے والا ’’إنا أنزلناه في ليلة القدر‘‘ پڑھے،کیونکہ حدیث میں ہے:جوشخص وضوء کے بعد: ’’إنا أنزلناه في ليلة القدر‘‘ پڑھ لے تواس کے چالیس (۴۰)برس کے گنا ہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
▪️علامہ علی متقی ہندی ؒ نے’’کنزالعمال‘‘[5]میں بھی بحوالہ دیلمی ؒ عن انس ؓ یہ روایت نقل کی ہے۔
🔍 روایت پر ائمہ کا کلام
▪️حافظ سخاوی ؒ ’’المقاصد الحسنة‘‘[6]میں لکھتے ہیں:
’’وكذا قراءة سورة’’إنا أنزلناه‘‘عقب الوضوء لا أصل له، وإن رأيت في المقدمة المنسوبة للإمام أبي الليث من الحنفية إيراده مما الظاهر إدخاله فيها من غيره، وهو أيضا مفوت سننه[كذا في الأصل] ‘‘.
اسی طرح وضوء کے بعد سورۂ ’’إنا أنزلناه‘‘کی بھی کوئی اصل نہیں، اگرچہ وضو ءکے بعد کایہ عمل میں نے امام ابو اللیث حنفی l کی جانب منسوب مقدمہ میں بھی پایا ہے[7]،بظاہر مقدمہ میں یہ کسی دوسرے نے داخل کردی ہے، نیزاس کا پڑھناسنن ِوضوء کو فوت کرنے والا ہے[8]۔
فائدہ: امام سخاوی ؒ فرمارہے ہیں کہ وضوء کے بعد’’إنا أنزلناه‘‘میں مشغول ہو نامسنون عمل کوفوت کرتا ہے،بظاہر امام سخاوی l کے کلام میں وضوء کے بعد کے اس مسنون عمل کی طرف اشارہ ہے:
▪️حضرت عمربن خطاب ؓ آپﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں: جوشخص اچھی طرح وضوء کرے،پھر یہ دعاپڑھے: ’’ أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، اللهم اجعلني من التوّابين واجعلني من المتطهّرين ‘‘.اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں،جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے[9]۔
موصوف نے’’ کشف الخفاء‘‘[10] میں حافظ سخاوی ؒ کے قول پر اکتفاء کیا ہے۔
آپ نے ’’النُخْبَة البَهِيَّة‘‘[11]میں اسے ’’لا أصل‘‘ کہا ہے۔
موصوف نے ’’اللؤلؤ المرصوع‘‘[12] میں پہلےکسی کی جانب سے تفویتِ سنت کا قول نقل کیا، پھر لکھتے ہیں:
’’.... لكن حديث قراءة إنا أنزلناه ذكره الفقيه أبو الليث السمرقندي، وهو إمام جليل، وكذا ذكره غيره من علمائنا ‘‘.
’’...لیکن وضوء کے بعد ’’اناانزلناه‘‘پڑھنے کی روایت فقیہ ابو اللیث سمرقندی ؒ نے ذکر کی ہے،اور وہ ایک بڑے امام ہیں،ان کےعلاوہ بھی ہمارے علماء نے اس کو ذکر کیا ہے‘‘۔
▪️آپ ’’الأسرار المرفوعة‘‘[13] میں حافظ سخاوی ؒ کا قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
’’وأراد أنه لا أصل له في المرفوع، وإلا فقدذكره الفقيه أبو الليث السمرقندي وهو إمام جليل ...‘‘.
’’امام سخاوی ؒ کے قول: ’’لا أصل له‘‘سے مراد یہ ہےکہ اس روایت کی مرفوع (آپ ﷺ کا قول)روایتوں میں کوئی اصل نہیں،اگر امام سخاوی ؒ کے قول کا یہ معنی نہ لیا جائے تو [ امام سخاوی ؒ کا یہ کلام درست نہیں ہوگا،کیونکہ] فقیہ ابو اللیث سمرقندی ؒ نے اسے ذکر کیا ہے،اور وہ ایک بڑے امام ہیں،[چنانچہ اسے مطلقاً بے اصل کہنا مراد نہیں ہے،بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ آپﷺ سے ثابت نہیں ہے] ...‘‘۔
▪️علامہ غَزِّی ؒ ’’الجد الحثيث‘‘[14] میں لکھتے ہیں: ’’لا أصل لها وإن أورد ذلك في المقدمة المنسوبة لأبي الليث‘‘.یہ بے اصل روایت ہے،اگرچہ ابو اللیث کی جانب منسوب مقدمہ میں موجود ہے۔
▪️علامہ طحطاوی ؒ (المتوفی:۱۲۳۱ھ)، حافظ سخاوی ؒ کا قول نقل کر کے لکھتے ہیں: ’’ ولفظه يدل على وضعه‘‘[15]. روایت کے الفاظ اس کے من گھڑت ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
▪️حافظ سیوطی ؒ اورحافظ ابن حجرہیتمی ؒ کے اقوال ابتداء میں گذرچکے ہیں،یعنی آپ دونوں نے سند میں ایک راوی کو مجہول قرار دیا ہے، اور حافظ سیوطی ؒ کی تصریح کے مطابق وہ راوی ابو عبیدہے۔
آپ دیکھ چکے ہیں کہ حافظ سخاوی ؒ کی متابعت میں علامہ عجلونی ؒ، علامہ محمد امیر مالکی ؒ،علامہ قاوقجی ؒ، حافظ غَزِّی ؒ،علامہ طحطاوی ؒ اورملاعلی قاری ؒ ان سب علماء نے اس حدیث کو بے اصل کہاہے،اور امام سخاوی ؒ کے اس موقع پر بےاصل کہنے سے یہ مراد ہے کہ یہ روایت رسالت مآ بﷺسے مرفوعاً ثابت نہیں ہے،جیساکہ ملاعلی قاری ؒ نے اس کی وضاحت کردی ہے،بلکہ امام طحطاوی ؒ نے اس کے من گھڑت ہونے کی بھی تصریح کردی ہے۔
❎ ️ان تمام ائمہ کی تصریحات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مذکورہ روایت آپﷺ سے ثابت نہیں،چنانچہ رسالت مآب ﷺ کی جانب اس روایت کا انتساب درست نہیں ہے۔
▪️نوٹ: واضح رہے کہ یہ تفصیل صرف اس حیثیت سے تھی کہ آپﷺ کے انتساب سے اس روایت کو بیان کرنا شرعاً کیا مقام رکھتا ہے ؟ آپ جان چکے ہیں کہ یہ درست نہیں ہے، لیکن بعض فقہاء خصوصاً شوافع علیہم الرحمہ نے اپنی فقہی کتب میں وضوء کے بعد اس عمل کو مستحب کہا ہے،احناف میں بھی بعض نے اسے مستحب لکھا ہے،جیسے فقیہ ابو لیث سمرقندی ؒ ،اس لئے آپﷺ کی جانب انتساب سے قطع نظر فقہی حیثیت سے وضوء کے بعد اس دعا کے پڑھنے کی کیا حیثیت ہے؟ یہ بحث ہما رے موضوع سے خارج ہے، کیونکہ ہم نے یہاں صرف انتساب بالرسول ﷺ کی حیثیت سے کلام کیا ہے، حاصل یہ ہے کہ اس دعا کی فقہی حیثیت کے بارے میں فقہاء کرام سے رجوع فرمالیں۔
📚 حوالہ جات
[1] الحاوی للفتاوى: کتاب الطهارة،۱/ ۳۳۹، دارالکتب العلمية – بیروت، ط:۱۴۰۷ هـ .
[2] أثَرو إثْر كلاهما يستعمل .
[3] الفتاوى الفقهية الكبرى: باب الوضوء،۱/ ۵۹، دار الفکر – بیروت .
[4] نزهة المجالس: باب فضل الصلوات لیلا ونها را ومتعلقاتها، محمد الخشاب، المطبعة الکاستلیة – الهند، ط:۱۲۸۳ هـ .
[5] کنزالعمال:کتاب الطها رة، ۹/ ۲۹۹، رقم:۲۶۰۹، مؤسسة الرسالة – بيروت، ط:۱۴۰۱ هـ .
[6] المقاصد الحسنة: رقم: ۱۱۶۲، ت: محمد عثمان الخشت، دارالکتاب العربی– بيروت، ط:۱۴۰۵ هـ .
[7] علامہ محمد بن عمر سفیری(المتوفی ۹۵۶ھ) نے ’’المجالس الوعظية في شرح أحاديث خير البرية‘‘ میں فقیہ ابواللیث سمر قندی ؒ کے حوالے سے یہ روایت بلا سند نقل کی ہے: ’.
[8] ‘‘الأسرار المرفوعة:ص:۳۴۰، رقم: ۵۱۶، ت: محمد الصباغ، المکتب الإسلإمی– بيروت، ط: ۱۴۰۶ هـ .
[9] سنن الترمذی: باب فیمایقال بعد الوضوء،۱/ ۷۸، رقم:۵۵، ت: أحمد شاکر، دار إحیاء التراث العربی – بيروت .
[10] کشف الخفاء: ۲/ ۳۱۹، رقم: ۲۵۶۶، ت: یوسف بن محمود، مکتبةالعلم الحدیث– بيروت، ط:۱۴۲۱ هـ
[11] النخبة البهية: ص:۱۱۹، رقم:۳۶۱، ت: زهير الشاويش، المكتب الإسلامي – بيروت، ط: ۱۴۰۹ هـ .
[12] اللؤلؤ المرصوع: ص: ۱۹۶، رقم: ۶۱۱، ت: فواز أحمد زمرلي، دار البشائر الإسلامية – بيروت، ط:۱۴۱۵ هـ .
[13] الأسرار المرفوعة: ص:۳۴۰، رقم: ۵۱۶، ت: محمد الصباغ، المکتب الإسلامی– بيروت، ط: ۱۴۰۶ هـ .
[14] الجد الحثيث: ۱/ ۲۳۴، رقم: ۵۳۰، ت: فواز أحمد زمرلي، دار ابن حزم- بیروت، ط: ۱۴۱۸ هـ. .
[15] حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح: کتاب الطهارة، ص:۷۹، ت: محمد عبد العزيز الخالدي، دار الكتب العلمية – بيروت، ط:۱۴۱۷ هـ .
( کتاب: غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ)
Comments
Post a Comment