نبی کریم ﷺ کی رحمت میں حضرت جبریل علیہ السلام کا حصہ

 🔲 غیر معتبر روایات سلسلہ نمبر 62 🔲

      

نبی کریم ﷺ کی رحمت میں حضرت جبریل علیہ السلام کا حصہ

 ”نبی علیہ الصلاۃ السلام نے ایک مرتبہ جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا؟ اے جبرئیل! کیا تجھے بھی میری رحمتہ اللعالمینی سے حصہ ملا ہے؟ 

عرض کیا: اے اللہ کے نبی! جی ہاں! مجھے بھی آپ کی رحمتہ اللعالمینی سے حصہ ملا ہے ۔ آپ ﷺ نے پوچھا: وہ کیسے؟

عرض کیا: اے اللہ کے محبوب ! جب آپ دنیا میں تشریف لائے تھے، اس وقت میں اپنے انجام کے بارے میں ڈرا کرتا تھا۔ میرے سامنے کئی نیک لوگوں کے انجام برے ہوۓ۔ میں نے شیطان کا بھی انجام دیکھا تھا، جس کی وجہ سے میں بھی ڈرتا تھا کہ پتا نہیں میرا انجام کیا ہوگا ، لیکن جب آپ تشریف لاۓ ، تو اللہ تعالی نے آپﷺ پر ایک آیت اتاردی: انه لقول رسول كريم ذي قوة عند ذي العرش مكين مطاع ثم امین» یہ آیت چوں کہ میرے بارے میں ہے اور اس سے مجھے اپنے اچھے انجام کا پتہ چل گیا؛ اس لیے میرے دل پر جو غم سوار رہتا تھا، آپ کی رحمتہ اللعالمینی کے صدقے مجھے اب اس غم سے نجات نصیب ہوگئی ہے ۔“

بیانات مولانا طارق جمیل صاحب: ۲۶۶/۲۔“  اور

" خطبات ذوالفقار : ۶/ ۲۴۹، میں اسے بیان کیا گیا ہے۔


◾تحقیق

یہ ترجمانی ہے اس روایت کی ، جو فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمہ اللہ کی تفسیر ” بحرالعلوم :۲/ ۲۲۵ میں نقل ہوئی ہے اور جس کے الفاظ یہ ہیں:


" إن النبي ﷺ قال لجبريل عليه السلام: هل أصابك من هذه الرحمة شيء ؟ قال: نعم، كنت أخشى العاقبة فأمنت لثناء الله تعالى علي في القرآن بقوله «ذى قوة عند ذي العرش مكين».

بعینہ یہی روایت فقیہ ابواللیث ہی کے حوالے سے قاضی عیاض رحمہ اللہ نے الشفاء بتعريف حقوق المصطفی‘ میں صرف نقل کی ہے۔ 

▪️اسی طرح مشہور محقق مفسر عظیم علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے بھی قاضی عیاض کے حوالے سے یہ روایت’روح المعانی میں نقل کی ہے، مگر ذکر کرنے کے بعد علی الفور تحریر فرمایا ہے:

"إذا صح هذا الحديث لزم القول بشمول العالمين للملائكة عليهم السلام إلا أن الجلال السيوطي ذكر في تزئين الأرائك “ أنه لم يوقف له على إسناد.“

 (اگر یہ روایت ثابت ہو جاۓ ، تو یہ ماننا پڑے گا کہ العالمین‘ عالم ملائکہ کو بھی شامل ہے، لیکن یہ روایت ثابت نہیں ہے؛ کیوں کہ امام سیوطی ؒ نے اپنی کتاب: تزئین الارائک میں ذکر کیا ہے کہ ان کو اس کی کوئی سند معلوم نہ ہوسکی۔) 

▪️علامہ آلوسی ؒ کا اس روایت کو نقل کرنا ، پھر امام جلال الدین سیوطی ؒ کی تحقیق ذکر کرنا اور اس پرمکمل سکوت فرمانا ، یہ دلیل ہے کہ جس طرح احادیث کے وسیع ذخیرہ پر نظر رکھنے والے امام ومحدث حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کو اس روایت کی اصل نہیں ملی ، علامہ آلوسی ؒ کو بھی نہیں اور ان دونوں حضرات کے علم وتحقیق میں یہ ایک بے اصل روایت ہے

▪️راقم کهتا هے: علامہ آلوسی رحمہ اللہ کے بقول جس طرح امام جلال الدین سیوطی کی تحقیق’تزئين الأرائك “ میں ہے، اسی طرح حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی ایک دوسری کتاب مناهل الصفا في تخريج أحاديث الشفاء‘ میں بھی یہی تحقیق تحریر فرمائی ہے، 

چناں چہ لکھتے ہیں:’لم أجدہ ( مجھے یہ حد یث کہیں نہیں ملی )۔

 اسی طرح اپنی اور ایک مشہور تالیف: "الحاوي للفتاوى“ میں رقم فرماتے ہیں کہ ان هذا الحديث لم يوقف له على إسناد (اس حدیث کی کوئی سند معلوم نہ ہوسکی )۔ 


▪️حافظ سیوطی رحمہ اللہ کے علاوہ محدث کبیر علامہ شیخ شہاب الدین خفاجی مصری رحمہ اللہ نسیم الریاض میں لکھتے ہیں:هذا لم يوجد في شيء من كتب الحديث ( یہ روایت حدیث کی کسی بھی کتاب میں موجود نہیں ہے )

 احادیث پر وسیع نظر ر کھنے والے امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تک کو اس حدیث کی سند کہیں نہیں ملی ، اسی طرح محدث عظیم علامہ خفاجی مصری رحمہ اللہ کو بھی یہ روایت کتب حدیث میں کہیں نہیں ملی اور دوسری طرف علامہ آلوسی رحمہ اللہ اس تحقیق سے متفق ہیں۔

تینوں ائمہ دین کے نزدیک اس روایت کا حدیث رسول ہونا ثابت نہیں ہے اور اتنی بات اس حدیث کو موضوع جعلی قرار دینے کے لیے کافی ہے، لہذا حدیث موضوع وخود ساختہ ہے۔


✍️ خلاصہ کلام

الغرض: اولا تو حدیث کی کسی بھی معتبر کتاب میں اس کا ذکر تک نہیں ہے۔ 

ثانیا: فقیہ ابواللیث رحمہ اللہ کی تفسیر میں ہے اور وہ بھی بلاسند۔ 

ثالثاً: دیگر کتب تفسیر کی طرح خاص طور پر تفسیر سمرقندی میں تو بہت ساری موضوع روایات درج ہیں۔

رابعاً: حضرات محدثین عظام کی تحقیق و تصریح کے مطابق اس کی کوئی اصل کہیں نہیں ہے۔

لہذا یہ سارے دلائل وقرائن گواہی دیتے ہیں کہ یہ حدیث ایک بے اصل وموضوع اور کسی کی وضع کردہ ومن گھڑت ہے۔


📚 حوالہ جات

1: (الشفاء مع شرح القاري:٤٥/١)

2: (روح المعاني:١٠٥/١٧) 

3: (مناهل الصفاء:۳۱)

4: (الحاوي للفتاوى: ١٤١/٢) 

5: (نسیم الریاض: ۱۷۸/۱)

6: (مقدمة المصنوع:٢٥)

(بحوالہ مروجہ موضوع احادیث کا علمی جائزہ 369)

〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️

Comments