میرا بستر سمیٹ دو،اب میرے آرام کے دن ختم ہوگئے

 🔲 غیر معتبر روایات سلسلہ نمبر 46 🔲


میرا بستر سمیٹ دو،اب میرے آرام کے دن ختم ہوگئے


▪️ روایت:

 ’’آپﷺ نے فرمایا: میرا بستر سمیٹ دو،اب میرے آرام کے دن ختم ہوگئے ‘‘۔

مذکورہ روایت درج ذیل الفاظ سے بھی بیان کی جاتی ہے۔

’’مضى عهد النوم‘‘ .  میری نیند کے دن ختم ہوگئے۔


’’لا راحة بعد اليوم يا خديجة! أجل مضى عهد النوم والدَعَة، وما عاد منذ اليوم إلا السَهَر والتعب‘‘۔

اے خدیجہ! آج کے بعد آرام کے دن ختم ہوگئے، نیند اور راحت کے دن گزرگئے، آج سےمسلسل بیداری اور مشقت ہو گی۔


مذکورہ روایت کو سید قطب ابراہیم ؒ نے ’’في ظلال القرآن‘‘[1] میں بلاسند اس طرح سے ذکرکیا ہے: ’’مضى عهد النوم يا خديجة !‘‘. میری نیند کے دن ختم ہوگئے۔


🌀 روایت کا حکم

تلاش بسیار کے باوجودیہ روایت سنداً تاحال ہمیں کہیں نہیں مل سکی، اورجب تک اس کی کوئی معتبر سند نہ ملے اسے آپ ﷺ کے انتساب سے بیان کرنا موقوف رکھا جائے،کیونکہ آپﷺ کی جانب صرف ایسا کلام و واقعہ ہی منسوب کیا جاسکتا ہے جو معتبر سند سے ثابت ہو، واللہ اعلم۔


▪️ذیل میں مذکورہ روایت سےقدرے مشترک، دو روایات لکھی جائیں گی،جنہیں بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔


1: اسے امام ابن ماجہ ؒ نے تحریر کیاہے:


’’حدثنا نَصْر بن علي، حدثنا عبد الله بن الزبير أبو الزبير، حدثنا ثابت البناني، عن أنس بن مالك قال: لما وجد رسول الله صلى الله عليه و سلم من كُرَب الموت ما وجد، قالت فاطمة: واكرب أبتاه، فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم: لا كَرْب على أبيك بعد اليوم، إنه قد حضر من أبيك ما ليس بتارك منه أحدا، الموافاةُ يوم القيامة‘‘[2].


ترجمہ:

  حضرت انس بن مالک ؒ فرماتے ہیں: جب رسول اللہﷺ پر سکرات شروع ہوئی تو حضرت فاطمہ ؒ نے کہا: ہائے میرے والد کی تکلیف،اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: آج کے بعد تمہارے والد پر کبھی سختی اور تکلیف نہ آئے گی، تمہارے والدپر وہ وقت آگیا جوسب پر آنے والا ہے،اب قیامت کے روز ملاقات ہوگی۔


علامہ احمدبن ابوبکر بن اسماعیل کنانی ؒ مذکورہ روایت کے متعلق ’’مصباح الزجاجة‘‘[3] میں فرماتے ہیں:


’’هذا إسناد فيه عبد الله بن الزبير الباهلي أبو الزبير ويقال أبو معبد البصري، ذكره ابن حبان في الثقات، وقال أبو حاتم: مجهول، وقال الدارقطني: بصري صالح، قلت: وباقي رجال الإسناد على شرط الشيخين، رواه الإمام أحمد في مسنده من حديث أنس أيضا، ورواه الترمذي في الشمائل عن نصر بن علي الجَهْضَمِي به ‘‘.


اس سند میں عبداللہ بن زبیر باہلی ابوزبیر ہے،اسے ابو معبد بصری بھی کہتے ہیں، ابن حبان ؓ نے ان کا ذکر ’’ثقات‘‘میں کیاہے،اور ابو حاتم ؒ کہتے ہیں:یہ مجہول ہے،اور دار قطنی ؒ کہتے ہیں:یہ صالح ہے۔میں [احمد بن اسماعیل کنانی ؒ] کہتا ہوں: سند کےباقی رجال شیخین کی شرط کے مطابق ہیں،اسے امام احمد ؒ نے اپنی مسند میں حضرت انس ؓ سےبھی روایت کیا ہے،اور امام ترمذی ؒ  ’’شمائل ‘‘میں نصر بن علی جہضمی سے یہی روایت نقل کرتے ہیں۔


 ▪️امام ابو عیسی ترمذی ؒ ’’الشمائل المحمدية‘‘[4] میں تخریج فرماتے ہیں:


’’حدثنا سفيان بن وكيع، أنبأنا جُميع بن عمير بن عبد الرحمن العِجْلِي، [ قال: حد] ثنی رجل من بني تميم من ولد أبي هالة زوج خديجة يكنى أبا عبد الله، عن ابن لأبي هالة، عن الحسن بن علي [رضي الله تعالى عنهما] قال: سألت خالي هند بن أبي هالة وكان وصَّافا، قلت: صف لي منطق ـ رسول الله صلى الله عليه وسلم ـ قال: كان رسول الله متواصل الأحزان، دائم الفكرة، ليست له راحة . . ..‘‘.


’’حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ میں نے اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ ؓ سےپوچھا،جو کہ آپ ﷺ کی صفات بہت زیادہ بیان کرنے والے تھے: آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کی گفتگوکا انداز بتائیے،انہوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ مستقل غمگین،ہمہ وقت فکرمند رہتے تھے،کسی پل آپ کو راحت نہ تھی ...‘‘۔


مذکورہ روایت کو حافظ ہیثمی ؒ ’’مجمع الزوائد‘‘[5] میں امام طبرانی کے حوالے سے لکھا ہے، روایت ذکر کرنے کے بعد حافظ ہیثمی ؒ فرماتے ہیں: ’’وفيه من لم يسم‘‘.اس روایت کی سند میں ایسا راوی ہے،جس کا نام نہیں لیا گیا۔


▪️ حوالہ جات

[1] في ظلال القرآن: سورة البقرة،۱/ ۷۶، صنفه: سيد قطب إبراهيم حسين الشاربي، دار الشروق – بيروت، ط:۱۴۲۳ هـ .


[2] سنن ابن ماجه:کتاب الجنائز،۱/ ۵۲۱، رقم: ۱۶۲۹، ت: محمد فؤاد عبد الباقي، دار الفكر – بيروت، ط: ۱۳۷۳ هـ .


[3]  شروح سنن ابن ماجه(مصباح الزجاجة):۲/ ۶۴۸، رقم:۱۶۲۹، ت: رائد بن صبری، بیت الأفکار الدولیة – الرياض، ط:۲۰۰۷ م .


[4] الشمائل المحمدية:ص: ۱۸۴،رقم:۲۲۶،ت:سید بن عباس الجَلیمی،المکتبة التجاریة– مکة المکرمة، ط:۱۴۱۳ هـ .


[5]  مجمع الزوائد:۸/ ۴۹۴، رقم:۱۴۰۲۶، ت: عبدالله محمد درويش، دار الفكر– بيروت، ط: ۱۴۱۲ هـ .




(غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ جلد دوم 364)

〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️

Comments