میں عشاء کی نماز میں مشغول ہوں اور سورہ فاتحہ پڑھ چکا ہوں، اسی دوران میری والدہ مجھے پکار کر کہے

 🔲 غیر معتبر روایات سلسلہ نمبر 45 🔲


◾روایت: اگر میں اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو اس حالت میں پاؤں کہ میں عشاء کی نماز میں مشغول ہوں اور سورہ فاتحہ پڑھ چکا ہوں، اسی دوران میری والدہ مجھے پکار کر کہے: اے محمد ! تو میں  جوابا اپنی والدہ سے کہوں گا: حاضر ہوں"


🔍 تحقیق کا اجمالی خاکہ


 ❶ حدیث کی تخریج

 ❷ روایت پر ائمہ حدیث کا کلام

 ❸ متہم راوی پر ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال

 ❹ گزشتہ تفصیلات سے ماخوذ روایت کا حکم 


🔹تخریج حدیث


 امام بیہقی ؒ ( المتوفی 435 ) " شعب الایمان " میں رقمطراز ہیں:

" اخبرنا ابو الحسين بن بشران ان ابو جعفر الرزاز ، نا يحيى بن جعفر، انا زيد بن الحباب، نا ياسين بن معاذ، نا عبد الله بن قُرير عن طلق بن علي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لو ادركت والديه او احدهما وانا في صلاه العشاء وقد قراءت فيها بفاتحه الكتاب، تنادي يا محمد ! لاجبتها على لبيك" _ ياسين بن معاذ ضعيف.

ترجمہ حضرت طلق بن علی فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صل اللہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا اگر میں اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو اس حالت میں پاؤں کہ میں عشاء کی نماز میں مشغول ہوں، اور سورہ فاتحہ پڑھ چکا ہوں، اسی دوران میری والدہ مجھے پکار کر کہے ، اےمحمد ! تو میں جوابا اپنی والدہ سے کہوں گا : میں حاضر ہوں!"_( امام بیہقی فرماتے ہیں) اس روایت میں یاسین بن معاذ ضعیف راوی ہے۔

▪️ علامہ ابن جوزی ؒ نے "الموضوعات" میں یہی روایت اس سند سے ذکر کی ہے:

" انبانا ابو الحسن علي بن احمد الموحد، انبانا ہناد بن ابراهيم النسفي، حدثنا ابو الحسن عفيف بن محمد الخطيب ،حدثنا ابو بکر محمد بن احمد بن حبيب، حدثنا يحيى بن ابي طالب، حدثنا زيد بن الحباب، حدثنا ابو بكر ياسين بن معاذ، حدثنا عبد الله بن قرين، عن طلق بن علي قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لو ادركت والدي او احدهما..... الحديث_

واضح رہے کہ امام بیہقی اور علامہ ابن جوزی کی ذکر کردہ دونوں سندوں میں راوی ابو بکر یاسین بن معاذ الزیات متکلم فیہ ہے ، جن کے بارے میں ائمہ رجال کے اقوال عنقریب تفصیل سے لکھے جائیں گے۔

https://chat.whatsapp.com/C6B4ssL3j243YxDoypEnDA


🔹نسخوں کے اختلاف پر مشتمل دو اہم تنبیہات


 ① "شعب الایمان" کی سند میں یاسین بن معاذ، عبداللہ بن قریر سے اس روایت کو نقل کرنے والے ہیں : لیکن حافظ ابن جوزی نے "کتاب الموضوعات" میں یہ لفظ عبداللہ بن قرین لکھا ہے، واضح رہے کہ  صحیح عبداللہ بن قُریر ہے، اور عبداللہ بن قرین ' تصحیف ' یعنی تبدیلی ہے، کیوںکہ حافظ ابن ماکولا نے " الاکمال فی رفع الارتیاب " میں عبداللہ بن قریر کے عنوان سے ترجمہ قائم کیا ہے، پھر لکھتے ہیں: " حدث عن طلق بن علي اليماني، روي عنه ياسين الزيات "  یعنی عبداللہ بن قریر، طلق بن علی سے، اور یاسین الزیات، عبداللہ بن قریر سے روایت نقل کرنے والے ہیں، چنانچہ ثابت ہوا کہ زیر بحث سند میں راوی عبداللہ بن قریر ہی ہے، اور عبداللہ بن قرین " تصحیف " تبدیلی ہے ، کیونکہ اس سند میں عبد اللہ بن قریر ، طلق بن علی سے ، اور یاسین الزیات، عبداللہ بن قریر سے روایت نقل کرنے والے ہیں_


 ② دوسری اہم بات یہ ہے کہ " شعب الایمان " کی عبارت میں لفظ "تنادی" ہے، چنانچہ ترجمہ بھی اسی لفظ کے مطابق( میری والدہ مجھے پکارے.......)  کیا گیا ہے ، البتہ " کتاب الموضوعات لابن الجوزی " میں یہ لفظ " ینادی "  لکھا ہے، اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا ( میرے والد یا والدین میں سے کوئی ایک مجھے پکارے......)_


    ✍️ روایت پر محدثین کا کلام


علامہ ابن جوزی ؒ، حافظ ذہبی ؒ، حافظ شمس الدین سخاوی ؒ، علامہ سیوطی ؒ ، اللہ ابن عراق ؒ، اور امام شوکانیؒ، ان تمام محدثین نے اپنی تصنیفات میں اس حدیث کا حکم بیان کیا ہے، ذیل میں ہر ایک کو تفصیل سے بیان کیا جائے گا، اور آخر میں ان تمام اقوال کاخلاصہ بھی لکھا جائے گا:


【۱】 امام بیہقی ؒ کا کلام:

   امام بیہقی تخریج روایت کے بعد فرماتے ہیں:

" اس روایت میں یاسین بن معاذ ضعیف راوی ہے"


 🌷امام بیہقی ؒ کے کلام کی وضاحت🌷


 امام بیہقی ؒ کے کلام کو سمجھنے سے قبل محدثین کرام کے ایک عملی منہج کا جاننا ضروری ہے، ذیل میں اس منہج کو بیان کرنے کے بعد امام بیہقی کے کلام کی وضاحت کی جائے گی_

 واضح رہے کہ محدثین کرام لفظ "ضعیف" کا اطلاق لفظ "ضعف خفیف" اور " ضعف شدید " دونوں کے لیے کرتے ہیں، اس صورت میں قرائن سے پہچانا جاتا ہے کہ یہاں "ضعیف" سے کیا مراد ہے، امام بیہقی نے بھی "شعب الایمان" میں صرف ایسی روایتیں لانے کا اہتمام کیا ہے، جو امام بیہقی کے نزدیک "جھوٹی" نہیں ہے، البتہ یہ ممکن ہے کہ روایت یا سند کے راوی ضعف شدید یا ضعف خفیف پر مشتمل ہو ، چناچہ امام بیہقی " شعب الایمان"  کے " مقدمہ" میں لکھتے ہیں:

" وانا على رسم اهل الحديث احب يراد ما احتاج اليه من المسانيد والحكايات باسانيدها ، والاقتصار علی  ما لا يغلب علی القلب كونہ كذبا"

محدثین کے طریقہ کار کے مطابق اپنی ضرورت کی مسانید اور حکایات کو ان کی سنددوں کے ساتھ لانا پسند کرتا ہوں، اور صرف وہی حدیث ذکر کرونگا، جن کے بارے میں میرا یہ گمان ہو کہ یہ حدیث جھوٹ نہیں ہے،،_

 اب ظاہر ہےکہ روایت کا شدید یاخفیف ضعیف ہونا، روایت کےجھوٹا ہونے کے علاوہ دو الگ قسمیں ہیں، ان اقسام کے "شعب الایمان" میں موجود ہونے کی امام بیہقی نے نفی نہیں کی ہے، یہی وجہ ہے کہ شعب الایمان کی اسانید کی طرف مراجعت کرنے والے افراد بخوبی جانتے ہیں کہ "شعب الایمان" کی سندیں شدید ضعیف راویوں سے خالی نہیں ہے،


 ▪️اس تفصیل کے بعد ہم زیربحث روایت پر امام بیہقی کے کلام کا جائزہ لیتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ امام بیہقی نے زیربحث روایت کی تخریج کرنے کے بعد لکھا ہے، اس روایت میں یاسین بن معاذ ضعیف راوی ہے،،_

 یہاں بھی لفظ ضعیف میں دونوں احتمال ہے ، یعنی ضعف شدید اور ضعف خفیف، اور آپ سابقہ کلام سے بخوبی جان چکے ہیں ، کہ فضائل کے باب میں ضعیف روایت کو بیان کرنا جائز یے، لیکن اس جواز کی بنیادی شرط حافظ ابن حجر کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ روایت ضعف شدید سے سے خالی ہو، اب یہاں حتمی طور پر بندہ کے سامنے کوئی واضح قرائن نہیں ہیں، جن سے ان دونوں احتمالوں میں کسی ایک کی تعیین کی جاسکے ، البتہ آئندہ تفصیلات کی روشنی میں یہ تو امر واضح ہے کہ امام بیہقی کے اس قول کو ( صراحت نہ ہونے کی وجہ سے )محض ضعف خفیف پر محمول کرنا بعید از قیاس ہے، بلکہ اس روایت کے بارے میں دیگر ائمہ کی صریح عبارتوں کی جانب رجوع کرنا چاہیے، جو ہم عنقریب لکھیں گے، واللہ اعلم_


【۲】 علامہ ابن جوزی ؒ کا کلام 


حافظ ابن جوزی "الموضوعات" میں لکھتے ہیں:

" هذا موضوع على رسول الله صلى الله عليه و سلم و فیہ ياسين، قال يحيى: ليس حديثه بشيء، وقال النسائي : متروك الحديث، و قال ابن حبان: يروي بالموضوعات عن الثقات، ویتفرد بالمعضلات عن الاثبات، لا يجوز الاحتجاج به"_

یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گھڑی گئی ہے، اور اس روایت کی سند میں یاسین ہے، جن کی بارے میں یحییٰ نے " لیس حدیثہ بشیئ " اور نسائی نے " متروک الحدیث" کہا ہے اور ابن حبان فرماتے ہیں: یاسین ثقہ راویوں کی طرف منسوب کرکے روایتیں گھڑتا تھا، اور وہ " اثبات " یعنی معتبر ثقہ راویوں سے " معضل " ( وہ روایت جس میں دو یا دو سے زائد راوی ساقط ہوں ) روایتیں نقل کرنے میں متفرد یعنی تنہا ہوتا ہے، چناچہ یاسین سے احتجاج جائز نہیں ہے،


 【۳】 علامہ ذہبی ؒ کا کلام:

 علامہ ذہبی "تلخیص کتاب الموضوعات" میں لکھتے ہیں

" فيه ياسين بن معاذ_ متروك_ ثنا عبد الله بن قرين، عن طلق بن علي، و لكن في سنده ھناد النسفی ھالک"_

اس حدیث کی سند میں یاسین بن معاذ_ متروک_ ہیں، یاسین نے عبد اللہ بن قرین، اور عبداللہ نے طلق بن علی سے یہ روایت نقل کی ہے، لیکن اس حدیث کی سند میں ھناد نسفی " ھالک " بھی ہے ،

 ہناد النسفی کے بارے میں کلام آگے آئے گا_

 

【۴】 حافظ شوکانی ؒ کا کلام:

 امام شوکانی "الفوائد المجموعہ" میں لکھتے ھیں:

" ھو موضوع ،آٓفتہ یاسین بن معاذ " یہ حدیث من گھڑت ہے اس میں یاسین بن معاذ آٓفت ھے ،


【۵】 حافظ سخاوی ؒ کا کلام:

حافظ شمس الدین سخاوی نے "المقاصدالحسنہ" میں زیر بحث روایت کو حدیث جریج کے لیے بطور شاھد ذکر کیا ہے، حدیث جریج یہ ہے: "  لوکان جریج فقیہا عالما لعلم اجابته دعاء امه اولي من عبادة ربه عزوجل"_

اگر جریج فقيہ عالم ہوتا، تو وہ جان لیتا کہ ماں کی پکار کا جواب دینا رب کی عبادت سے اولیٰ ہے"_


 🔹حدیث جریج کی وضاحت


حافظ حسن بن سفیان نے اپنی "مسند" میں حدیث جریج کی تخریج کی ہے، اور حافظ ابن حجر نے "فتح الباری" میں جریج کی مذکورہ روایت میں " یزید بن حوشب الفہری" کو مجہول قراردیا ہے_ ملاحظہ ہو:

" وقد روی الاحسن بن سفيان وغيره من طريق الليث عن يزيد بن حوشب عن ابيه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لو كان جريج عالما لعلم ان جابته امه اولى من عبادة ربه"_ ويزيد هذا مجهول۔

آپ صل الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اگر جريج عالم ہوتا ، تو وه جان لیتا کہ ماں کی پکار کا جواب دینا رب کی عبادت سے اولی ہے،"_

( حافظ ابن حجر فرماتے ہیں) اس حدیث کی سند میں یزید مجہول راوی ہے_


 【۶】 امام سیوطی ؒ کا کلام:


 علامہ سیوطی نے " اللائی المصنوعہ " میں علامہ ابن جوزی کا تعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے: "(قلت) اخرجه البيهقي في الشعب والله اعلم "_ ‏ میں امام سیوطی کہتا ہوں کہ بیہقی نے شعب الایمان میں اس حدیث کی تخریج کی ہے واللہ اعلم_


 ⑦ حافظ ابن عراق ؒ کا کلام:

 علامہ ابن عراق "تنزیہ الشریعہ" میں حافظ ابن جوزی کے کلام اور علامہ سیوطی کے تعاقب کو نقل کرکے لکھتے ہیں:

" قلت: وكذلك اشار الذهبي في "تلخيص الموضوعات" الى ضعفه من جهة ياسين ثم استدرك فقال و لكن في سنده هناد النسفي والله اعلم_"

میں ابن عراق کہتا ہوں کے ذہبی نے "تلخیص الموضوعات" میں یاسین کی جانب سے اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیا تھا،

پھر حافظ ذھبی نے استدراکا کہا: لیکن اس حدیث کی سند میں ہناد النسفی ہے واللہ اعلم۔

 واضح رہے کہ "ہناد النسفی" علامہ ابن جوزی کی سند میں ہے لیکن علامہ بہیقی کی سند میں نہیں ہے، اس لیے ہناد النسفی کی مجروحیت میں بیہقی کی سند کیلئے مضر نہیں ہے، البتہ دوسرا متکلم فیہ راوی، یاسین بن معاذ دونوں سندوں میں ہے ،_


🌐 روایت پر کلام کا خلاصہ


 محدثین عظام کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ علامہ ابن جوزی ؒ، حافظ ذہبی ؒ ، اور امام شوکانی، نے یاسین بن معاذ الزیات کو متہم قرار دے کر اس روایت کو " موضوع " کہا ہے، البتہ امام بیہقی نے زیربحث روایت تخریج کرنے کے بعد "یاسین بن معاذ ضعیف" کہنے پر اقتصار کیا ہے، اور علامہ سیوطی نے بھی علامہ ابن جوزی کے تعاقب میں صرف بیہقی کی روایت نقل کی ہے، اور مزید کوئی کلام نہیں کیا، اسی طرح حافظ سخاوی نے حدیث جریج کے لیے امام بیہقی کی روایت کو بطور شاھد نقل کیا ہے، اور امام بیہقی کے مذکورہ کلام کی تفصیل ہم دیکھ چکے ہیں: کہ امام بیہقی کا یہ کلام، محدیثین کے منہج کے مطابق ضعف خفیف اور ضعف شدید دونوں کا احتمال رکھتا ہے، اس لئے امام بیہقی کا یہ قول روایت کے قابلِ بیان ہونے کے لیے ہرگز کافی نہیں ہے، بہرحال یہ بات بخوبی معلوم ہو چکی ہے کہ اس روایت میں محدثین کرام کے کلام کا مدار یاسین بن معاذ ہے، لہذا ذیل میں یاسین بن معاذ کے بارے میں ائمہ رجال کے تفصیلی اقوال لکھے جائیں گے۔


ابو خلف یاسین بن معاذ الزیات کے بارے میں ائمہ رجال کے اقوال


 حافظ ذہبی "میزان الاعتدال" میں لکھتے ہیں:

" وكان من كبار فوقهاء الكوفت ومفتيها، واصله و يمامي، يكنى ابا خلف، قال ابن معين: ليس حديثه بشيء، و قال البخاري: منكر الحديث، قال النسائي وابن الجنيد: متروک_ قال ابن حبان: يروي الموضوعات....."_


یاسین بن معاذ کا شمار کوفہ کے بڑے فقہاء اور مفتیوں میں ہوتا تھا، یاسین اصل میں یمامہ کا رہنے والا تھا، جس کی کنیت ابو خلف تھی، یاسین کے بارے میں ابن معین نے "لیس حدیثہ بشیئ " بخاری نے "منکر الحدیث" اور نسائی اور ابن جنید نے "متروک" کہا ہے اور ابن حبان فرماتے ہیں کہ وہ حدیثیں گھڑتا تھا......"_

 ابو حاتم محمد بن ادریس التیمی فرماتے ہیں: 

"كان رجلا صالحا،لا يعقل ما يحدث به ، ليس بقوي، منكر الحديث "_

یاسین نیک شخص تھا جن حدیثوں کو بیان کرتا تھا وہ خود بھی انہیں نہیں سمجھتا تھا، یاسین "قوی" نہیں تھا، منکر الحدیث تھا_


 امام ابو سعد عبدالکریم بن محمد التمیمی السمعانی "الانساب" میں فرماتے ہیں:

" من اهل الكوفة، انتقل الى اليمامة واقام، ثم سكن الحجاز، يروي عن ابي الزبير و الزهري، روي عنه عبد الرزاق ، كان ممن يروي الموضوعات عن الثقات، ويتفرد بالمعضلات عن الاثبات، لا يجوز الاحتجاج به بحال"_

یاسین کوفی تھا، پھر یمامہ منتقل ہوکر وہاں اقامت اختیار کی، پھر حجاز میں سکونت اختیار کرلی، ابو زبیر اور زھری سے روایت نقل کرتا تھا ، اور عبدالرزاق، یاسین سے حدیث نقل کرتا ، یاسین ثقہ راویوں کی طرف منسوب کرکے روایتیں گھڑتا تھا ، اور "اثبات" ( معتبر اور ثقہ راوی سے ) "معضل" (وہ روایت جس میں دو یا دو سے زائد راوی ساقط ہوں) روایتیں نقل کرنے میں متفرد ہوتا تھا، چنانچہ یاسین سے احتجاج بہر صورت جائز نہیں ہے،


 حافظ ابن حجر "لسان المیزان" میں رقمطراز ہے:

" وقال الجوزجاني: لم يرض الناس حديثه، وقال النسائ في "التمييز": ليس بثقة، ولا يكتب حديثه، و قال ابو زرعة: ضعيف_ وقال ابو داود: كان يذهب الى الارجاء، وهو متروك الحديث، ضعيف، وهو بيبع الزيت اعلم منه بالعلم_ و قال ابن عدي: وكل رواياته او عامتها غير محفوظة_ قال الحاكم و النقاش: روي المناكير_ وقال ابو احمد الحاكم : ليس بالقوي عندهم_ وذكره العقيلي، و الدولالي، وابن الجارود، و ابن شاهين في "الضعفاء"_

اور جوزجانی فرماتے ہیں: کہ لوگ یاسین کی حدیثوں سے راضی نہیں تھے، نسائی فرماتے ہیں کہ یاسین ثقہ نہیں ہے ، اور اس کی حدیثیں نہ لکھی جائیں،


 ابو زرعہ نے یاسین کو ضعیف کہا ہے، اور ابو داؤد فرماتے ہیں کہ وہ "ارجاء" کی جانب چلتا تھا، اور وہ "متروک الحدیث" اور "ضعیف" ھے، اور وہ علم سے زیادہ تیل بیچنا جانتا تھا،_

 ابن عدی فرماتے ہیں کہ یاسین کی ساری یا اکثر حدیثیں محفوظ نہیں ہیں،

 حاکم اور نقاش فرماتے ہیں کہ یاسین مناکیر نقل کرتا تھا_

 خلیلی نے یاسین کو "ضعیف جدا" کہا ہے _

اور ابو احمد حاکم فرماتے ہیں: کہ یاسین محدثین کے نزدیک قوی نہیں تھا_

 اور دولابی، ابن جارود، اور ابن شاہین نے یاسین کو ضعیف کہا ہے؛


 🔹ائمہ رجال کے اقوال کاخلاصہ اور روایت کا فنی حکم


 یاسین بن معاذ کے بارے میں ائمہ رجال کے اقوال آپ کے سامنے تفصیل سے آچکے ہیں، ان تمام ائمہ رجال نے یاسین بن معاذ کو ضعیف قرار دیا ہے،


اور علامہ ابن حبان، حافظ ابو حاتم، امام بخاری، امام نسائی، حافظ جنید، امام ابو داؤد، امام خلیلی، امام حاکم، حافظ نقاش،

امام ابن جوزی، حافظ سمعانی، حافظ ذہبی، اور علامہ شوکانی وغیرہ تمام محدثین نے یاسین بن معاذ کے بارے میں صاف اور جرح کی شدید فنی الفاظ استعمال کیے ہیں:


 ▪️حاصل یہ ہے کہ ان متقدمین و متاخرین علماء کی سابقہ تصریحات کے مطابق، زیر بحث روایت کسی بھی طرح ضعف شدید سے خالی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن الجوزی حافظ ذہبی اور علامہ شوکانی نے اس روایت کو موضوع تک کہا ہے، اس لئے ان تمام نصوص کا قدر مشترک اتفاقی نتیجہ یہی ہے، کہ یہ روایت ضعف شدید سے کسی بھی صورت میں خالی نہیں رہ سکتی، اسلئے زیربحث روایت کو فضائل کے باب میں بھی بیان کرنا جائز نہیں ہے ، کیونکہ جمہور علماء کے نزدیک ضعیف حدیث پر اگرچہ فضائل کے باب میں عمل کرنا جائز ہے ، البتہ حافظ ابن حجر کے حوالے سے یہ بات گزر چکی ہے، کہ اس جواز عمل کے لئے اتفاقی شرط یہ ہے کہ حدیث ضعیف 

 ضعف شدید سے خالی ہو،


ایک اہم نکتہ


 یہاں ایک دوسرا اہم نکتہ بھی مد نظر رہے کہ ائمہ سابقین یعنی امام بخاری امام ابوحاتم حافظ ابن عدی امام حاکم امام نقاش علامہ سمعانی نے یاسین بن معاذ کے بارے میں یہ وضاحت بھی صاف لفظوں میں کی ہے کہ یاسین "منکرالحدیث" ہے اور وہ مناکیر نقل کرتا تھا ، نیز ان کی روایتیں غیر محفوظ ہیں، جن میں وہ متفرد ہوتا ہے، اب آپ یاسین بن معاذ کی زیر بحث روایت کو ان اقوال کی روشنی میں عین منطبق پائیں گے، کیونکہ یہ روایت مجروح راوی یاسین بن معاذ کی سند ہی سے مروی ہے، اور وہ اس میں متفرد ہے، یعنی یاسین بن معاذ کے علاوہ کوئی دوسرا راوی اس روایت کو نقل کرنے والا نہیں ہے، نیز ظاھری حدیث بھی نکارت پر مشتمل ہے، چنانچہ اصول حدیث کے مطابق یہ روایت منکر بھی کہلائے گی،


 حاصل یہ ہے کہ یاسین بن معاذ جیسے راوی کی حدیث تفرد اور نکارت کی صورت میں ،روایت کو مزید " ساقط  الاعتبار " بنادیتی ہے،_


 🌐 روایت کا فنی حکم 🌐


 یہاں تک کی توضیحات کا بے غبار نتیجہ تکرار سے ماقبل میں آتا رہا ہے کہ زیر تبصرہ روایت ، بہر صورت ضعف شدید پر مشتمل ہے، اور اسے حافظ ابن الجوزی حافظ ذہبی اور امام شوکانی نے من گھڑت کہا ہے، اور حافظ ابن حجر کی تصریح کے مطابق جمہور علماء کے نزدیک فضائل کے باب میں بھی ایسی روایت بیان کرنا جائز نہیں ہے، جیساکہ تفصیل ماقبل میں گزر چکی ہے۔



 🔘غیر معتبر روایت کا فنی جائزہ ج 1 ص 103🔘

〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️

Comments