مسجد سے بال نکالنے پر فضیلت

🔲 غیر معتبر روایات سلسلہ نمبر 51🔲

 

مسجد سے بال نکالنے پر فضیلت

▪️روایت:

 ’’مسجد سے بال کا نکالنا ایسے ہے جیسے مردار گدھے کا مسجد سے نکالنا ‘‘۔


✍️ روایت کا حکم

تلاش بسیار کے باوجود یہ روایت سنداً تاحال ہمیں کہیں نہیں مل سکی، اور جب تک اس کی کوئی معتبر سند نہ ملے اسے آپ ﷺ کے انتساب سے بیان کرنا موقوف رکھا جائے، کیونکہ آپﷺ کی جانب صرف ایسا کلام وواقعہ ہی منسوب کیا جاسکتا ہے جومعتبر سند سے ثابت ہو، واللہ اعلم۔


▪️ذیل میں مسجد سے خس وخاشاک نکالنے کے بارے میں ایک روایت ذکر کی جائے گی، اور اس پر ائمہ کا کلام بھی لکھا جائے گا،اور یہ روایت فضائل کے باب میں ہے، اسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔


▪️ روایت

’’عن أبي قِرْصَافة، أنه سمع النبي صلى الله عليه و سلم يقول: ابنوا المساجد و أخرجوا القُمَامَة منها، فمن بنى لله مسجدا بنى الله له بيتا في الجنة، فقال رجل: يا رسول الله ! و هذه المساجد التي تبنى في الطريق؟ قال: نعم، وإخراج القُمَامة منها مهور الحور العين‘‘[1].

ترجمہ:  ابوقرصافہ ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:‘‘مساجد بناؤ اور ان سے خس وخاشاک نکال دو،جس شخص نے اللہ کے لئے مسجد تعمیر کی اللہ اس کے لئے جنت میں گھر تعمیر کرے گا،ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ مساجد جو راستے میں بھی بنی ہوئی ہوتی ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: جى ہاں، اور ان مساجد سے خس وخاشاک نکالنا حورعین کا مہر ہے ‘‘۔


🔹حافظ ہیثمی ؒ اس روایت کوتحریر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ’’رواه الطبراني في الكبير، وفي إسناده مجاهيل‘‘ .اس روایت کو حافظ طبرانی ؒ نے ذکرکیا ہے اور اس کی سند میں مجہول راوی ہیں۔


🔹علامہ سیوطی ؒ فرماتے ہیں: ’’صححه الضياء المقدسي في المختارة ‘‘[2].اسےضیاء مقدسی ؒ نے ’’الاحادیث المختارہ‘‘میں صحیح کہا ہے۔


🔹علامہ ابن عراق ؒ نے مذکور ہ روایت کے متعلق علامہ سیوطی ؒ کے کلام پر اکتفاء کیا ہے [3]۔


علامہ مناوی ؒ مذکورہ روایت کی تشریح کے بعد فرماتے ہیں:۔۔


’’رمز المؤلف لصحته،وإن تعجب فعجب رمزه مع حكم الحافظ المنذري بضعفه، وإعلال زين الحفاظ العراقي في شرح الترمذي له بأن في إسناده جهالة، وقول الحافظ الهيتمي وغيره في إسناده، لكن المؤلف اغتر بتصحيح الضياء‘‘[4].


🔹حافظ سیوطی ؒ نے ’’جامع صغیر‘‘ میں اس حدیث کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے،آپ کو تعجب ہورہا ہوگا،بات ہے بھی تعجب کی کہ حافظ سیوطی ؒ نے اس روایت پرصحیح ہونے کی علامت لگائی ہے، حالانکہ حافظ منذری ؒ نے اس کے ضعیف ہونے کا حکم لگایا ہے، اور حافظ عراقی ؒ نے بھی ’’شرح ترمذی‘‘میں جہالتِ سند کی وجہ سے اسے معلول قرار دیا ہے،نیز حافظ ہیتمی ؒ وغیرہ نے بھی اس کی سند پر کلام کیا ہے،معلوم ہوتا ہے کہ حافظ سیوطی ؒ،حافظ ضیاء مقدسی ؒ کے صحیح قرار دینے کی وجہ سے بے خبری میں اسے صحیح کہہ گئے ہیں۔


🔹علامہ مناوی ؒ ہی ’’التیسیر‘‘[5]میں فرماتے ہیں :’’في إسناده جهالة لكنه اعتضد، فصارحسنا‘‘.اس کی سند میں جہالت ہے،لیکن یہ (دوسری سندوں سے)مضبوط ہوکر’’ حسن ‘‘کہلائے گی۔


✍ ️ حاصل کلام یہ ہے کہ مذکورہ روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن اسے فضائل کے باب میں بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔


◾حوالہ جات

[1]  مجمع الزوائد:۲/ ۱۱۳، رقم:۱۹۴۹، ت: عبدالله محمد درويش، دار الفكر– بيروت، ط: ۱۴۱۲ هـ .


[2]  اللآلئ المصنوعة:کتاب البعث،۲/ ۳۷۶، دار الكتب العلمية– بيروت، ط: ۱۴۱۷ هـ .


[3]  تنزيه الشريعة:الفصل الثانی،۲/ ۳۸۴،رقم:۲۱، ت: عبد الله بن محمد الغماري، دار الكتب العلمية– بيروت، ط:۱۴۰۱ هـ .


[4]  مصنف عبد الرزاق:۱/ ۵۲۸، رقم:۲۰۲۱، ت: حبيب الرحمن الأعظمي، المكتب الإسلامي– بيروت، ط:۱۴۰۳ هـ .


[5] التيسير بشرح الجامع الصغير:۱/ ۱۷،دارالطباعة الخدیویة– مصر،ط:۱۲۸۶ هـ .


(غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ جلد دوم 376)

〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️

Comments