حضرت عمر فاروق ؓ کا اپنے بیٹے ابو شحمہ کو بطور حد کوڑے لگانا
🔲 غیر معتبر روایات سلسلہ نمبر 41 🔲
🌷عنوان روایت🌷
حضرت عمر فاروق ؓ کا اپنے بیٹے ابو شحمہ کو بطور حد کوڑے لگانا
🔎 تحقیق کا اجمالی خاکہ
زیر بحث روایت کی تحقیق چار اجزاء پر مشتمل ہے،
١. روایت اور اس کے مصادر اصلیہ
٢. روایت پر ائمہ حدیث کا کلام
٣. صحیح واقعہ کی تعیین
٤. اہم نتائج
▪️ابو شحمہ عبد الرحمن بن عمر بن خطاب کا مختصر تعارف
حضرت عمر کے عبد الرحمن نامی تین بیٹے تھیں،زیر بحث قصہ،بعبد الرحمن اوسط ابو شحمہ کی طرف منسوب ہے_
حافظ ابن کثیر (المتوفی ٧٧٤ھ)"البدایہ والنہایہ" میں لکھتے ہیں_
"حضرت عمر نے ایک لُھَیَّہ نامی خاتون سے نکاح کیا، عبد الرحمن الاوسط ابو شحمہ ایک قول کے مطابق انہی کے بطن سے پیدا ہوئے، البتہ علامہ واقدی نے لکھا ہے کہ لھیہ ام ولد تھی، بیوی نہی تھی"_
🎍روایت کے مصادر اصلیہ اور مراجع🎍
مذکورہ قصہ کو حسین بن ابراھیم جوزقانی (المتوفی ٥٤٣ھ)نے "الاباطیل و المناکیر" میں اور ابو العباس محب الدی الطبری (المتوفی٦٩٤ھ) نے "الریاض النضرہ" بلا سند نقل کیا ہے ،البتہ علامہ ابن الجوزی نے "الموضوعات" میں شِیروَیہ کی مکمل سند کے ساتھ یہ واقعہ نقل کیا ہے ، نیز شیرویہ کے علاوہ دو اور مزید سندیں بھی ذکر کی ہے ، جن میں یہی روایت مختصرا مذکور ہے ، اور علامہ جلال الدین سیوطی نے "اللائ المصنوعہ" یہ تینوں طریق نقل کئے ہیں_
پہلی سند ١ .....حافظ ابن جوزی "کتاب الموضوعات" میں لکھتے ہیں ، "حُدثت عن ابی محمد بن صالح فیکتابہ، انبانا ابو عبد اللہ الحسن بن علی قراءة، حدثنا محمد بن عبید الاسدی ، حدثنا ابو الاحوص، عن سعید بن مسروق قال: کانت امرأةتدخل رلی آٓل عمر او منزل عمر ومعھا صبی....، "
اس روایت کا حاصل یہ ہے کہ ایک عورت حضرت عمر کی خدمت میں ایک بچہ لائی اور کہا کہ اپ کے بیٹے ابو شحمہ نے مجھ سے زناکیا ہے اور یہ بچہ انکی اولاد ہے ،ابو شحمہ نے بھی زنا کا اقرار کرلیا ، جس کے نتیجہ میں حضرت عمر ؓ نے ابو شحمہ پر حد نافزکی ، جس میں پچاس کوڑے حضرت عمر ؓ اور پچاس کوڑے حضرت علی ؓ نے مارے۔
🌷روایت پر کلام🌷
▪️١.....علامہ جوزقانی نے اسے باطل قرار دیا ہے
▪️٢..... علامہ ابن جوزی روایت کے بعد لکھتے ہیں:
"ھذا وضعہ القصاص وقد ابدوا فیہ واعادوا وقد شرحوا اطالوا"
یہ من گھڑت موضوع روایت ہے جسے قصہ گوئوں نے گھڑ رکھا ہے ، اور قصہ گو اپنی طرف سے اسمیں باتیں بناتے ، اضافے کرتے، اور خوب شرح و بسط سے اسے بیان کرتے رہے ہیں _
▪️٣.....حافظ ذھبی "تلخیص الموضوعات" میں لکھتے ہیں:
"ھذا وضعہ القصاص یروی عن ابی الاحوص عن سعید بن مسروق منقطعا"_
یہ قصہ گو کی موضوع روایت ہے.....،
▪️٤.....علامہ جلال الدین سیوطی رقم طراز ہیں:
"موضوع وضعہ القصاص، وفی الاسناد من ہو مجھول و سعید بن مسروق من اصحاب الاعمش،فاین ھو و حمزة"(وھو تصحیف والصحیح عمر)
یہ من گھڑت روایت ہے، اسے قصہ گو نے بنایا ہے، نیز سند میں مجہول راوی ہے اعر سعید بن مسروق اعمش کے ساتھیوں میں ہے،وہ کہاں یعنی ان کا لقا ثابط نہیں ہے ، اور حمزہ یہ لفظ مصحف ہے ، صحیح عمر ہے،
🌷 ٢-دوسری سند 🌷
"فیہ مجاھیل قال الدارقطنی : حدیث مجاہد عن ابن عباس فی حد ابی شحمة لیس بصحیح"
ابو شحمہ کی حد کے بارے میں مجاھد کی "حدثت عن هارون بن طاھر، انبانا صالح بن احمد بن محمد فی کتابہ، حدثنا ابو الحسین علی بن الحسین الرازی املاءاً، حدثنا ابو یزید بن یحی بن الخالد المروزی، حدثنا محمد بن احمد صالح التیمی حدثنی الفضل بن العباس، حدثنی عبد العزیز بن الحجاج الخولانی، قال ابو الحسین- ھکذا قال - وھو عند یعبد القدوس بن الحجاج ، حدثنی صفوان عن عمر انہ کان لہ ابنان ، یقال لاحدھما : عبد اللہ و الاخر عبید اللہ وکان یکنی ابا شحمة..."
اس روایت میں ہے کہ ابو شحمہ نے نسیکہ یہودی کی مجلس میں نبیذ پی ، پھر بنی نجار کے باغ میں ایک عورت سے زنا کیا _
🌷 روایت پر کلام 🌷
▪️١.....علامہ جوزقانی نے اسے باطل قرار دیا ہے،
▪️٢.....علامہ ابن جوزی اس روایت کے بعد لکھتے ہیں:
"فان عبد القدوس کذاب قال ابن حبان : کان یضع الحدیث علی الثقات لا یحل کتب حدیثہ"
بلا شبہ عبد القدوس کذاب ہے ، ابن حبان فرماتے ہیں: عبد القدوس ثقات پر حدیثیں گھڑتا تھا، ان کی احادیث لکھنا جائز نہیں ہے،
▪️٣.....حافض شمس الدیب ذھبی "تلخیص کتاب الموضوعات" میں لکھتے ہیں: "وضعہ الجھلة لیبکی العوام والنساء "؛
جاہلوں نے اسے وضع کیا تاکہ مردوزن کو اب دیدہ کیا جائے_
٤.....علامہ سیوطی"اللائی المصنوعہ" میں فرماتے ہیں:
"عبد القدوس کذاب ، یضع وصفوان بینہ وبین عمر رجال "
عبد القدوس کذاب ہے جو روایت گھڑتاہے ، اور صفوان اور عمر کے ما بین رجال ہے،یعنی سند میں انقطاع ہے _
🌷 ۳ -تیسری سند 🌷
حدثت عن شیرویہ بن شھریار الحافظ (کذا فی الاصل)، انبانا ابو الحسن علی بن الحسن بن بکیر الفقیہ،
انبانا ابو بكر عبدالرحمن بن محمد بن القاسم النیسابری ، انبانا ابو سعد عبدالکریم بن ابی عثمان الزاھد، حدثنا ابو القاسم بن بابویہ الصرفی، حدثنا ابو عبد اللہ ، ابراھیم بن محمد، حدثنا احمد بن محمد بن عیسی، حدثنا ابو حذیفة عن شبل عن مجاھد، قال:تذاکر الناس فی مجلس بن عباس فاخذوا فی فضل ابی بکر..."
یہ روایت مفصل ہے جسکو قصہ گو نے ملمع سازی کے ساتھبیان کیا ہے، اور اسی کا ترجمہ کرکے ےشھیر کی ہے،
خلاصہ کلام یہ ہیکہ
ابو شحمہ نے نسیکہ یہودی کے پاس شراب پی کر باغ بنی نجار میں ایک عورت سے زنا کیا ، پھر اس عورت نے اس زنا کے نتیجہ میں ایک بچہ کو جنم دیا، عورت بچہ حضرت عمر کے پاس لیکر آٓئ اور ابو شحمہ نے حضرت عمر کے سامنے زنا کا اقرار کرلیا ، حضرت عمر کے ارشاد پر افلح نامی غلام نے حد نافذ کی، اور سو کوڑے لگائیں، اخر کار ابو شحمہ کا دم نکل گیا _چالس دن بعد حضرت حذیفہ بن یمان نے خواب میں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حالت میں زیارت کی کہ ابو شحمہ سبز پوشاک پہنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقامت حد کی وجہ سے حضرت عمر کی تحسین کی ، اور ابو شحمہ نے بھی حضرت عمر کے حق میں دعائیہ کلمات کہیں،
🌷 روایت پر کلام 🌷
▪️١.....علامہ جوزقانی نے اسے باطل قرار دیا ہے،
▪️٢.....علامہ ابن الجوزی اس روایت کے بعد لکھتے ہیں:
"فیہ مجاھیل ، قال الدارقطنی: حدیث مجاھد عن ابن عباس فی حد ابی شحمة لیس بصحیح"
دارقطنی نے کہا ہے کہ ابو شحمہ کے حد کے بارے میں مجاھد کی وہ حدیث جو ابن عباس سے مروی ہے صحیح نہیں ہے ،
▪️٣..... علامہ سیوطی "اللائی المصنوعہ" میں فرماتے ہیں:
"موضوع فیہ مجاھیل"
یہ روایت موضوع ہے اسمیں مجہول راوی ہے،
▪️٤.....حافظ شمسالدین ذھبی "تلخیص کتاب الموضوعات" میں لکھتے ہیں:
"قال الدارقطنی: حدیث مجاھد عن ابن عباس فیحد ابی شحمة لیس بصحیح"
کہ ابو شحمہ کی حد کے بارے میں مجاھد کی حدیث جو ابن عباس سے مروی ہے وہ صحیح نہیں ہے ،
▪️٥.....حافظ ابن حجر"الاصباہ فی تمییز الصحابہ" میں رقم طراز ہے :
"جاء فی خبر واہ ان اباہ جلدہ فمات ، ذکرہ الجوزقانی"
ایک واہی خبر میں ہے کہ ابو شحمہ کو انکے والد نے کوڑے مارے تھے ، جس سے انک انتقال ہوگیا،
🌷 نتائج 🌷
ان تینوں طرق کے بارے میں ائمہ حدیث کے سابقہ اقوال کا خلاصہ یہ رہا کہ علامہ حسین بن ابراھیم جوزقانی نے "الاباطیل و المناکیر میں" اس واقعہ کو باطل جعلی اور منگھڑت قرار دیا ہے،اور حافظ ابن جوزی نے"الموضوعات" میں ، حافظ شمسالدین ذھبی نے "تلخیص الموضوعات" میں اور حافظ ابن حجر نے "الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں"، اور علامہ جلال الدین سیوطی نے "اللائ المصنوعہ" میں علامہ جوزقانی کی موافقت کی ہے اور اس واقعہ کو من گھڑت کہا ہے،
🌷 علامہ ابن الجوزی کا تبصرہ 🌷
علامہ ابن الجوزی تینوں روایتوں کی تفصیل کے بعد لکھتے ہیں :
"وضعہ الجہال القصاص، لیکون سببا فی تبکیة العوام والنساء،فقد ابدعوا فیہ واتو بکل قبیح ونسبوا الی عمر ما لا یلیق بہ و نسبوا الصحابة الی ما لایلیق بھم ، و کلماتہ الرکیکةتدل علی وضعہ ، وبعدہ عن احکام الشریعة یدل علی سوء فھم واضعہ وعدم فقھہ "،
▪️یہ واقعہ جاھل قصہ گو نے گھڑ رکھا ہے، تاکہ عام لوگوں اور عورتوں کو آٓب دیدہ کیا جائے ، اس سلسلہ میں انہوں نے نئے نئے طریقے اپنائے، اور ہر قسم کی نا شائستہ باتیں لیکر آٓئیں، حضرت عمر کی طرف ایسی باتیں منسوب کردیں ، جو ان کے شایان شان نہیں ، اور ایسے ھی صحابہ پر نامناسب باتیں چسپا کردیں، اس روایت میں موجود رقیق جملیں بتا رہے ہیں کہ یہ من گھڑت ہیں ، اور قصہ کے اندر موجود غیر شرعی پہلوئوں سے صاف معلوم ہوتا ہیں ، کہ اس کا گھڑنے والا بد فہم اور دینی سمجھ سے محروم ادمی تھا،
البتہ ذیل میں ابو شحمہ کے واقعی قصے کی تفصیل مستند تاریخی شواہد کی روشنی میں پیش کی جائیگی، جس سے معلوم ہوگا کہ صحیح واقعہ کیا تھا اور لوگوں نے اس واقعہ میں کون کونسی پیوند کاری کی ہے،
🌷صحیح واقعہ کی تعیین🌷
🌷 حافظ ابن سعد اور حافظ زبیر بن بکار کی تاریخی روایات 🌷
محدث علامہ ابن عراق الکتانی نے "تنزیہ الشریعہ" میں ابو شحمہ کی طرف منسوب من گھڑت روایت کو مسترد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس واقعہ کے بارے میں اصل بات وہ ہے جسکو زبیر بن بکار اور ابن سعد نے "الطبقات" میں ذکر کیا ہے،
"والذی ورد فی ھذا ما ذکرہ زبیر بن بکار وابن سعد فی الطبقات وغیرھما ان عبد الرحمان الاوسط من اولاد عمر و یکنی ابا شحمة كان بمصر غازیا فشرب لیلة نبیذا فخرج الی السکر فجاء الی عمرو بن العاص فقال لہ :اقم علی الحد فامتنع فقال لہ: انی اخبر ابی اذا قدمت علیہ فضربہ الحد فی دارہ ولم یخرجہ فکتب الیہ عمر یلومہ ویقول:الا فعلت بہ ما تفعل بجمیع المسلمین، فلما قدم علی عمر، ضربہ فاتفق انہ مرض فمات"_
عبدالرحمن اوسط جن کی کنیت ابو شحمہ ہے، مجاہدین کے لشکر کے ساتھ مصر میں میں مقیم تھے ، ایک شب اپنے نبیذ پی لی، جس کے اثر سے نشہ میں آگئے، چنانچہ حضرت عمرو بن عاص کے پاس آٓکر کہا کہ مجھ پر حد نافذ کرلیں ، لیکن حضرت عمرو بن عاص پس و پیش کرنے لگے (شاید نبیذ کی وجہ سے) یہ دیکھ کر ابو شحمہ نے کہا اگر اپ ایسا نہیں کرینگے تو میں واپس جاکر اپنے والد کو بتادونگا ، ان کا اصرار دیکھ کر حضرت عمرو بن عاص نے گھر کے اندر ان پر حد نافذ کردی اور اسکے لئے انکو باھر نہیں لائے، (حضرت عمر کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو)حضرت عمرو بن عاص کو خط لکھ کر ملامت کی کہ اپ نے ابو شحمہ کے ساتھ وہ معاملہ کیوں نہیں کیا جو اپ دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں ، اس واقعہ کے بعد پھر جب ابو شحمہ حضرت عمر کے پاس مدینہ اگئے ، تو حضرت عمر نے دو بارہ تادیبا کوڑے لگائے، پھر اسکے بعد ابو شحمہ اتفاقا بیمار ہوگئے، اور اسی بیماری میں اپ کا انتقال ہو گیا،
🌷 امام عبد الرزاق کی روایت 🌷
یہ واقعہ امام عبد الرزاق رحمہ اللہ "المتوفی ٢١١ھ" نے بھی اپنی "مصنف" میں اپنی سند کے ساتھ تخریج کرکے لکھا ہے
فلبث شهرا صحيحا ثم اصابه قدره فمات فحسب عامة الناس انما مات من جلد عمر رضي الله عنه و لم يمت من جلد عمر رضي الله عنه" ؛
ابوشحمہ کوڑے لگنے کے بعد ایک ماہ تک تندرست رہیں، پھر اس کے بعد بیمار ہو کر انتقال کر گئے، عام لوگ یہ غلط خیال کرنے لگے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے کوڑوں سے انتقال کر گئے، حالانكہ ایسا نہیں ہے ، وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے کوڑوں سے ہرگز فوت نہیں ہوئے،
حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ کا تبصرہ:
یہی تفصیل حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے (المتوفی ٤٦٣ ھ ) نے بھی "الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب" میں لکھی ہے البتہ الاستیعاب میں یہ اضافہ بھی ہے:
....واما اهل العراق فيقولون: انه مات تحت سياط عمر وذلك غلط_
اور عراقیوں میں یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ ابو شحمہ کا انتقال حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے کوڑے لگنے کی وجہ سے ہوا ہے، حالاں کہ غلط ہے،
🌷 اہم نتائج 🌷
تنزیہ الشریعہ، مصنف عبد الرزاق، اور استیعاب، میں جن حقائق کو بیان کیا گیا ہے، ان سے دو بنیادی نتائج حاصل ہوتے ہیں،
① ......ابوشحمہ عبدالرحمن کو ابتداء نبیذ نوشی کی وجہ سے کوڑے مارے گئے تھے، البتہ زنا کو ابوشحمہ کی طرف منسوب کرنا باطل اور من گھڑت ہے،
② .....مصر میں حد نافذ ہونے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے مدینہ منورہ میں ابوشحمہ کو دوبارہ کوڑے تادیبا مارے تھے، اور ابو شحمہ کا انتقال اس حد کے بعد کوڑے کھانے سے نہیں ہوا، بلکہ ان کا انتقال عام طبعی موت سے ہوا ہے؛
چناچہ "مصنف عبد الرزاق" کے یہ الفاظ ہمارے قول کی دلیل ہے: " فلبث شهرا صحيحا ثم اصابه قدره فمات ..." یعنی ابوشحمہ کوڑے لگنے کے بعد ایک ماہ تک تندرست رہے، پھر اس کے بعد بیمار ہو کر انتقال کر گئے، البتہ عراق میں يه مشہور ہوگیا کہ ابو شحمہ کا انتقال کوڑے لگنے کی وجہ سے ہوا ہے، حالانكہ یہ بات بالکل غلط ہے،
یہی اس تاریخی واقعے کی حقیقت ہے ، اس کے علاوہ دیگر پیوندکاری کا اسلامی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں، لیکن قصہ گو لوگوں کو موقع ہاتھ لگ گیا اور انہوں نے سابقہ طویل من گھڑت حکایت اس واقعہ پر چسپاں کردیں؛
🌷 تحقیق کا خلاصہ🌷
آخر میں ہم علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کی ایک عبارت پیش کرتے ہیں، جو اس پورے مضمون کا خلاصہ اور قول فیصل کی حیثیت رکھتی ہے:
وليس بعجب ان يكون شرب النبيذ متاولا فسكر عن غير اختيار، و انما_ لما قدم على عمر _ ضربه ضرب تاديبا لا ضرب حد ، فمرض بعد ذلك ، لا من الضرب و مات،_ فلقد ابدوا فيه القصاص واعادو"_
اور اس بات کا بھی پورا امکان ہے کہ ابو شحمہ نبیذ جائز سمجھ کر پی ہو، اور بےاختیار نشہ میں آگیا ہوں، اور ابوشحمہ جب مدینہ منورہ حضرت عمر کے پاس لوٹے، تو آپ نے بطور تادیب ان کو کوڑے لگائے نہ کہ حد نافذ کرنے کے لئے، اس کے بعد ابو شحمہ (قضائے الہی سے) بیمار ہو گئے، یہ نہیں کہ کوڑے لگنے سے بیمار ہوئے، اور اسی طبعی بیماری کی حالت میں انتقال کر گئے، پھر قصہ گو نے اپنی طرف سے باتیں بنائیں اور وہی اس میں اضافے بھی کرتے رہے"_
🔘غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ🔘
Comments
Post a Comment