حضرت ابوبکر ؓ کے اونٹ گم ہوجا نے پر آپﷺ کا تکبیرِ اولیٰ کی اہمیت کو اجاگر کرنا

 🔲 غیر معتبر روایات سلسلہ نمبر 52 🔲

 

حضرت ابوبکر ؓ کے اونٹ گم ہوجا نے پر آپﷺ کا تکبیرِ اولیٰ کی اہمیت کو اجاگر کرنا


▪️روایت:

حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے اونٹ گم ہو گئے آپ ؓ بہت غم زدہ ہوئے، نبی اکرم ﷺ آپ ؓ کے پاس آئے اورآپ ﷺ نےحضرت ابوبکر ؓ کو غمگین پایا، ابو بکرصدیق ؓ سے اس کی وجہ پوچھی، انہوں نے ساری بات بتادی، نبی اکرمﷺ نے فرمایا:‘‘میرا تویہ خیال تھاکہ تمہاری تکبیر ِاولی فوت ہوگئی ہے‘‘،ابوبکر ؓ نے کہا: تکبیرِ اولیٰ کا ثواب اتنا زیادہ ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’تکبیر ِاولیٰ کا ثواب تو دنیا و مافیہا سے بہتر ہے‘‘۔


▪️اس روایت کو علامہ عبدالرحمن صفوری شافعی ؒ نے ’’نزهة المجالس‘‘[1] میں بلاسند اس طرح سے ذکرکیا ہے، آپ لکھتے ہیں:


’’أخذ اللصوص لأبي بكر الصديق رضي الله عنه أربع مائة بعير وأربعين عبدا، فدخل النبي صلى الله عليه وسلم فرآه حزينا، فسأله فأخبره، فقال: ظننت أنه فاتتك تكبيرة الإحرام، فقال: يا رسول الله! وفواتها أشد؟ قال: ومن ملء الأرض جِمَالا. وفي الخبر: من فاته تكبيرة الإحرام، فقد فاتته تسع مائة وتسع وتسعون نعجة في الجنة، قرونها من ذهب، ذکره النیسابوری‘‘.

ترجمہ:  ابو بکرصدیق ؓ کےچارسو اونٹ(۴۰۰) اور چالیس غلاموں(۴۰) کو چور لے گئے، آپﷺابوبکر ؓ کے پاس آئے اور انہیں غمگین پایا، آپﷺ نے ان سے پوچھا تو انہوں نے ساری بات گوش گزار کردی،آپﷺ نے فرمایا: ’’میرا خیال تھا کہ آپ کی تکبیرِ اولیٰ فوت ہوگئی‘‘،ابو بکر ؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول !تکبیرِ اولیٰ کا فوت ہونا اتنا سخت ہے،آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تکبیرِاولیٰ کا فوت ہوجانا زمین بھر اونٹ لٹ جانےسے زیادہ سخت ہے‘‘۔


▪️ایک روایت میں آیا ہے کہ آپﷺنےفرمایا: جس کی تکبیرِ اولیٰ فوت ہو جائے تو اس کی جنت سے نوسو ننانوے(۹۹۹) ایسی بھیڑیں جن کے سینگ سونے کےہیں فوت ہوگئیں،اسے نیشاپوری ؒ نے ذکر کیا ہے۔


✍️ روایت کا حکم

تلاش بسیار کے باوجود یہ روایت سنداً تاحال ہمیں کہیں نہیں مل سکی، اور جب تک اس کی کوئی معتبر سند نہ ملے اسے آپ ﷺ کے انتساب سے بیان کرنا موقوف رکھا جائے،کیونکہ آپﷺ کی جانب صرف ایسا کلام وواقعہ ہی منسوب کیا جاسکتا ہے جو معتبر سند سے ثابت ہو، واللہ اعلم۔


▪️تتمہ: زیرِ بحث روایت سے ملتی جلتی ایک دوسری روایت امام مجاہد ؒ سے مرسلا منقول ہے، جسے حافظ عبدالرزاق صنعانی  ؒ نے ’’المصنف‘‘[2] میں تخریج کیا ہے، اسے بیان کرنا درست ہے، ملاحظہ ہو:


’’أخبرنا عبد الرزاق، قال: أخبرنا إسرائيل، عن أبي يحيى، عن مجاهد، قال: سمعت رجلا من أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم، قال: لا أعلمه إلا من شهد بدرا، قال لابنه: أدركت الصلاة معنا؟ [كذا في الأصل، وفي كنز العمال: قال: لا] قال: أدركت التكبيرة الأولى؟ قال: لا، قال: لما فاتك منها خير من مائة ناقة كلها سُوْدُ العين‘‘.


حضرت مجاہد ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کے ایک صحابی سے سنا، اور میں تو انھیں شرکاء بدر ہی میں سمجھتا ہوں،انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا:تم نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی؟ [ بیٹے نے کہا: جی ہاں ] انہوں کہا: تکبیر اولیٰ کو پایا؟ بیٹے نے کہا: نہیں،انہوں نے کہا: جوتکبیر اولیٰ تم سے فوت ہوئی ہے وہ ایسی سو(۱۰۰)اونٹیوں سے بہتر ہےجو سب کی سب سیاہ آنکھوں والی ہو۔


📚 حوالہ جات

[1]  نز هةالمجالس:۱/ ۱۱۹، محمد الخشاب، المطبعة الکاستلیة –  الهند، ط:۱۲۸۳ هـ .


[2] مصنف عبد الرزاق:۱/ ۵۲۸، رقم:۲۰۲۱، ت: حبيب الرحمن الأعظمي، المكتب الإسلامي – بيروت، ط:۱۴۰۳ هـ .


(غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ جلد دوم 379)

Comments