کیا آدم علیہ السلام تک آنحضور ﷺ کا نسب بیان کرنا درست ہے؟

 📖 غیر معتبر روایات سلسلہ نمبر 18 📖


کیا آدم علیہ السلام تک آنحضور ﷺ کا نسب بیان کرنا درست ہے؟


▪️ جواب:

عدنان کے آگے بیان کرنا صحیح نہیں۔


✍️ تحقیق :

اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و کو سب سے اعلی نسب اور سب سے بہترین گھرانے میں پیدا کیا، جیسا کہ درج ذیل حدیثیں اس پر دلالت کر رہی ہیں 



▪️ 1 -  3605 - ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺧﻼﺩ ﺑﻦ ﺃﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺼﻌﺐ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻷﻭﺯاﻋﻲ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻋﻤﺎﺭ، ﻋﻦ ﻭاﺛﻠﺔ ﺑﻦ اﻷﺳﻘﻊ، ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: «ﺇﻥ اﻟﻠﻪ اﺻﻄﻔﻰ ﻣﻦ ﻭﻟﺪ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ، ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ، ﻭاﺻﻄﻔﻰ ﻣﻦ ﻭﻟﺪ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻨﻲ ﻛﻨﺎﻧﺔ، ﻭاﺻﻄﻔﻰ ﻣﻦ ﺑﻨﻲ ﻛﻨﺎﻧﺔ ﻗﺮﻳﺸﺎ، ﻭاﺻﻄﻔﻰ ﻣﻦ ﻗﺮﻳﺶ ﺑﻨﻲ ﻫﺎﺷﻢ، ﻭاﺻﻄﻔﺎﻧﻲ ﻣﻦ ﺑﻨﻲ ﻫﺎﺷﻢ»: (ترمذی)  «ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﺣﺴﻦ ﺻﺤﻴﺢ» 

کہ اللہ نے اولاد ابراھیم میں اسماعیل اسماعیل علیہ السلام کو منتخب کیا، پھر اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں کنانہ کو منتخب کیا، اور بنی کنانہ میں قریش کو منتخب کیا، اور قریش میں بنوھاشم کو منتخب کیا، اور مجھے بنوھاشم میں منتخب کیا


▪️ 2/  «ﺃﻧﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻤﻄﻠﺐ، §ﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﺧﻠﻖ اﻟﺨﻠﻖ ﻓﺠﻌﻠﻨﻲ ﻓﻲ ﺧﻴﺮﻫﻢ ﻓﺮﻗﺔ، ﺛﻢ ﺟﻌﻠﻬﻢ ﻓﺮﻗﺘﻴﻦ ﻓﺠﻌﻠﻨﻲ ﻓﻲ ﺧﻴﺮﻫﻢ ﻓﺮﻗﺔ، ﺛﻢ ﺟﻌﻠﻬﻢ ﻗﺒﺎﺋﻞ ﻓﺠﻌﻠﻨﻲ ﻓﻲ ﺧﻴﺮﻫﻢ ﻗﺒﻴﻠﺔ، ﺛﻢ ﺟﻌﻠﻬﻢ ﺑﻴﻮﺗﺎ ﻓﺠﻌﻠﻨﻲ ﻓﻲ ﺧﻴﺮﻫﻢ ﺑﻴﺘﺎ ﻭﺧﻴﺮﻫﻢ ﻧﻔﺴﺎ».

(ترمذی)   ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﺣﺴﻦ

میں محمد بن عبدالمطلب ھوں، اللہ تعالٰی نے مخلوق پیدا کی مجھے ان کے سب سے بہتر طبقہ میں پیدا کیا، پہر ان کو دو گروہ میں منقسم کیا اور مجھے ان میں بہتر گروہ میں پیدا کیا، پھر ان کے قبیلے بنائے، تو مجھے ان کے بہترین قبیلہ میں پیدا کیا، پھر ان کے گھرانے بنائے اور مجھے سب سے بہتر گھرانے میں اور سب سے بہتر ذات والا بنایا

دور جاھلیت میں بھی  اپ کے نسب کو اللہ تعالٰی نے محفوظ رکھا جیساکہ اپ کا خود ارشاد ہے : ولدت من نکاح لا من سفاح (اجرجہ ابن سعد کما فی السیرۃ لابن کثیر 1/191) 

اسی طرح ہر نبی کو اللہ سب سے بہتر حسب ونسب میں بھیجتا ہے،  جیساکہ ھرقل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے نسب کے متعلق ابو سفیان کا جواب سننے کے بعد کہا تھا  ﻛﺬﻟﻚ اﻟﺮﺳﻞ ﺗﺒﻌﺚ ﻓﻲ ﺃﻧﺴﺎﺏ ﻗﻮﻣﻬﺎ. ﻳﻌﻨﻲ ﻓﻲ ﺃﻛﺮﻣﻬﺎ ﺃﺣﺴﺎﺑﺎ ﻭﺃﻛﺜﺮﻫﺎ ﻗﺒﻴﻠﺔ. ﺻﻠﻮاﺕ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻬﻢ ﺃﺟﻤﻌﻴﻦ۔


▪️ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اپ علیہ الصلاۃ والسلام کا مکمل نسب ما وشما کے علم میں بھی ہو۔

قرآن مجید کی ایک آیت سے معلوم ھوتا ہے کہ اس کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاا نہیں سورہ ابراہیم کی ایت نمبر(٩) میں ہے 

الم يأتكم نبأ الذين من قبلكم قوم نوح وعاد وثمود والذين من بعدهم لا يعلمهم الا الله (إبراهيم) 

اس ایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عاد وثمود کے بعد جو قومیں گذری ہیں ان کا علم بجز اللہ کے کسی کے پاس نہیں ہے. 


▪️ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مذکورہ آیت پڑھتے تھے اور فرماتے تھے  : کذب النسابون نسب بیان کرنے والے جھوٹے ہیں، عروۃ بن الزبیر کہتے ہیں : ماوجدنا احدا یعرف مابعد معد بن عدنان (تفسیر ابن کثیر 4/481)  اسی طرح کی بات عمروبن میمون رحمۃ اللہ علیہ سے سے بھی مروی ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : بین عدنان وإسماعيل ثلاثون ابا لايعرفون،عدنان اور اسماعیل کے درمیان تیس پیڑیاں ہیں جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں، ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا انا انسب الناس میں لوگوں کا نسب سب سے زیادہ بیان کرسکتا ھوں  تو حضرت علی نے فرمایا تم ایسا نہیں کر سکتے، اور سورہ فرقان کی یہ آیت تلاوت فرمائی وعادا وثمود وأصحاب الرس وقرونا بین ذلک کثیرا، اس پر اس شخص نے کہا میں ان کثیر کا نسب بیان کر سکتا ھوں اس پر  حضرت علی نے سورہ ابراہیم کی مذکورہ آیت پڑھی تو وہ شخص لاجواب ھوگیا (الدر المنثور9/5)


▫️ علامہ سیوطی نے حاکم کی الکنی سے نقل کیا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب اپنا نسب بیان کرتے تھے عدنان پر رک جاتے تھے اور فرماتے تھے نسب بیان کرنے والے جھوٹے ہیں 

ﻭﺃﺧﺮﺝ اﻟﺤﺎﻛﻢ ﻓﻲ اﻟﻜﻨﻲ ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺇﺫا اﻧﺘﻬﻰ ﺇﻟﻰ ﻣﻌﺪ ﺑﻦ ﻋﺪﻧﺎﻥ ﺃﻣﺴﻚ ﺛﻢ ﻳﻘﻮﻝ: ﻛﺬﺏ اﻟﻨﺴﺎﺑﻮﻥ ﻗﺎﻝ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ {ﻭﻗﺮﻭﻧﺎ ﺑﻴﻦ ﺫﻟﻚ ﻛﺜﻴﺮا} (الدر المنثور 259/6) 

https://chat.whatsapp.com/GQ87wAMiHvmKnwrq3ISSjU 👈


اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی فرماتے تھے ﺇﻧﻤﺎ ﻳﻨﺘﺴﺐ ﺇﻟﻰ ﻋﺪﻧﺎﻥ ﻭﻣﺎ ﻓﻮﻕ ﺫﻟﻚ ﻻ ﻧﺪﺭﻯ ﻣﺎ ﻫﻮ ، عدنان تک نسب بیان کیا جاسکتا ہے اس کے اوپر ہم نہیں جانتے (المواھب اللدنیہ 62/1) 


▫️ کذب النسابون کی شرح میں علامہ مناوی لکھتے ہیں : 

 (ﻛﺬﺏ اﻟﻨﺴﺎﺑﻮﻥ) ﻗﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﻜﺸﺎﻑ: ﻳﻌﻨﻲ ﺃﻧﻬﻢ ﻳﺪﻋﻮﻥ ﻋﻠﻢ اﻷﻧﺴﺎﺏ ﻭﻗﺪ ﻧﻔﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻤﻬﺎ ﻋﻦ اﻟﻌﺒﺎﺩ (ﻗﺎﻝ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ {ﻭﻗﺮﻭﻧﺎ ﺑﻴﻦ ﺫﻟﻚ ﻛﺜﻴﺮا} ) ﻳﻌﻨﻲ ﻫﻢ ﻣﻦ اﻟﻜﺜﺮﺓ ﺑﺤﻴﺚ ﻻ ﻳﻌﻠﻢ ﻋﺪﺩﻫﻢ ﺇﻻ اﻟﻠﻪ ﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﺩﺣﻴﺔ: ﺃﺟﻤﻊ اﻟﻌﻠﻤﺎء ﻭاﻹﺟﻤﺎﻉ ﺣﺠﺔ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺁﻟﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻛﺎﻥ ﺇﺫا اﻧﺘﺴﺐ ﻻ ﻳﺠﺎﻭﺯ ﻋﺪﻧﺎﻥ 

                     (فیض القدیر550/4) 


▫️ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : استقام نسب الناس الی معد بن عدنان (مجمع الزوائد 193/4) 


▫️ امام مالک رحمہ اللہ کسی کے بھی نسب کو یہاں تک کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کے نسب کو بھی آدم تک بیان کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے 

قال البغوی: وکان مالک بن انس یکرہ ان ینسب الانسان نفسہ ابا ابا الی ادم،  وکذلک فی حق النبی صلی اللہ علیہ و سلم لانہ لایعلم اولئک الآباء الا اللہ عزوجل۔    (معالم التنزيل 31/3) 


▪️اس لیے اپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نسب آدم تک  بیان کرنا صحیح نہیں، بعض کتابوں میں آدم علیہ السلام تک نسب نامہ مذکور ہے، جیسے : سنن کبری للبیھقی (593/6) مشیخۃ القزوینی 174،175) سیرۃ ابن ھشام (3/1) التاريخ الکبیر للبخاری(6/1) الانساب للسمعانی 13/1)*


مگر معد بن عدنان کے بعد بہت اختلاف ہے، مختصر تاریخ دمشق میں اور امام طبری نے تاریخ الرسل والملوک (274/2)اس اختلاف کو بیان کیا گیاہے، صرف عدنان اور اسماعیل کے بیچ میں کتنے واسطے ہیں اس میں بھی بڑا اختلاف ہے ٤٠،٢٠،٣٠،١٥،١٠،٩،٧،٤ سبھی اقوال ہیں جیسا کہ البدایہ والنھایہ میں ابن کثیر نے ذکر کیا ہے (البدایہ 245/2) 


▪️اکثر اھل سیر نے عدنان تک ذکر کرنے کے بعد کذب النسابون والی روایات ذکر کرکے اسکے صحیح نہ ھونے کو بیان کیا ہے، امام بخاری نے گو التاریخ الکبیر میں آدم تک نسب ذکر کیا ہے مگر صحیح بخاری میں عدنان تک ہی ذکر کیاہے، امام بیھقی نے آدم تک نسب ذکر کر نے کے بعد ابوعبدالله الحافظ کا قول ذکر کیا ہے: نسبة رسول الله صلى الله عليه وسلم الى عدنان صحيحة ومازاد على ذلك فليس فيه شئ يعتمد پہر اس کی وجہ امام بیھقی تحریر فرماتے ہیں : وذلک لاختلاف النسابین فی ذلک،  فمنھم من یزید ومنہم من ینقص، ومنہم من یغیر (شعب الایمان للبیھقی 514/2) 


 🔘 اس لیے عدنان کے بعد نسب کے سلسلے میں کف لسانی سے کام لینا چاہیے مبادا اس میں کچھ خلط ملط اور تغییر وتبدیلی نہ ھوجائے۔۔۔

واللہ اعلم بالصواب

Comments