ایک بدو کا آپ ﷺ سے ٢٤ سوالات کرنا
🔲 غیر معتبر روایات سلسلہ نمبر 42 🔲
ایک بدو کا آپ ﷺ سے ٢٤ سوالات کرنا
🥀تحقیق کا اجمالی خاکہ🥀
اس روایت کی تحقیق تین بنیادی اجزاء پر مشتمل ہے،
① روایت اور اس کے مصادر اصلیہ
② سند کی تحقیق
③ روایت کا فنی حکم
روایت اور اس کے مصادر
▪️علامہ علاء الدین علی المتقی الہندی رحمہ اللہ ( المتوفی ٩٧٥ ھ )" کنزالعمال" میں لکھتے ہیں۔
"قال الشيخ جلال الدين السيوطي رحمه الله تعالى: وجدت الشيخ شمس الدين بن القماح في مجموع له، عن ابي العباس المستغفري قال: قصدت مصر اريد طلب العلم من الامام ابي حامد المصري والتمست منه حديث خالد بن الوليد، امرني بصوم سنة، ثم عاودته في ذلك، فاخبرني باسناده عن مشايخه الى خالد بن الوليد رضي الله عنه، قال : جاء رجل الى النبي صلى الله عليه و سلم...._،
علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے شیخ شمس الدین ابن القماح کے ایک "مجموعہ" میں روایت ملی جس میں ابوالعباس مستغفری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک دفعہ علم کی تلاش میں ابوحامد مصری کے پاس مصر جانے کا ارادہ کیا، وہاں پہنچ کر میں نے ان سے حدیث خالد بن ولید کی التماس کی، انہوں نے مجھے ایک سال روزے رکھنے کا حکم فرمایا ، پھر میں نے اس بارے میں ان سے دوبارہ گزارش کی، تو انہوں نے اپنے شيخ سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ تک کی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، حضرت خالد رضی اللہ تعالی عنہ بن ولید فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا، کہ میں دنیا و آخرت کے متعلق آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چاہے پوچھو، اس پر وہ شخص کہنے لگا،
① یانبی الله! احب ان اکون اعلم الناس"
اے اللہ کے نبی میں سب سے بڑا عالم بننا چاہتا ہوں،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "اتق اللہ، تکن اعلم الناس"
اللہ کا خوف اختیار کر لو، سب سے بڑے عالم بن جاؤ گے، وہ شخص کہنے لگا
② احب ان اکون اغنی الناس" میں لوگوں میں سب سے زیادہ غنی بننا چاہتا ہوں،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"کن قنعا تكن اغني الناس" قناعت اختیار کرو لوگوں میں سب سے غنی بن جاؤ گے،
وہ شخص کہنے لگا۔
③ احب ان اكون خيرا الناس " میں لوگوں میں سب سے بہتر بننا چاہتا ہوں،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچانے والا ہوں چناچہ تو بھی لوگوں کو نفع پہنچانے والا بن جا،
وہ کہنے لگا:
④ احب ان اکون اعدل الناس " میں لوگوں میں سب سے بڑا عالم بننا چاہتا ہوں،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
احب للناس ما تحب لنفسك تكن اعدل الناس" جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہیں لوگوں کے لیے پسند کر لوگوں میں سب سے بڑا عادل بن جائے گا،
وہ کہنے لگا :
⑤ احب ان اكون اخص الناس الي الله تعالي " میں اللہ کی بارگاہ میں سب سے خاص بندہ بننا چاہتا ہوں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
"اكثر ذكر الله ،تكن اخص العباد الي الله" _ اللہ کا ذکر کثرت سے کر، تو اللہ کے بندوں میں سب سے زیادہ خاص بن جائے گا
وہ کہنے لگا
⑥ احب ان اكون من المحسنين " - میں ان لوگوں میں ہونا پسند کرتا ہوں، جو احسان والے یعنی صفت احسان کے ساتھ متصف ہیں؛
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
"اعبد الله كانك تراه، فان لم تكن تراه فانه يراك " اللہ کی عبادت ایسے کر، گویا تو اس کو دیکھ رہا ہے، پھر اگر تو اسے نہیں بھی دیکھ رہا ہے، تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے،
وہ کہنے لگا
⑦ "احب ان يكمل ايماني" _ میں چاہتا ہوں کہ میرا ایمان کامل ہو جائے،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"حسن خلقك يكمل ايمانك" اپنے اخلاق اچھے بنا لے تيرا ايمان كامل ہوجائے گا،
وه کہنے لگا
⑧ "احب ان اكون من المطيعين"میں اللہ کے فرماں بردار بندوں میں سے بننا چاہتا ہوں ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" اد فرائض الله تكن مطيعا" اللہ کے فرائض کو بجالاؤ، اللہ کے مطیع بن جاؤ گے،
وہ کہنے لگا :
⑨ "احب ان القي الله نقيا من الذنوب" میں چاہتا ہوں کہ گناہوں سے پاک صاف ہو کر اللہ سے ملوں_
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
" اغتسل من الجنابة متطهرا، تلقي الله يوم القيامة وما عليك ذنب " _ غسل جنابت خوب صفائی سے کیا کر، ایسا کرنے پر تو روزِ قیامت اللّہ سے اس حال میں ملےگا کہ تم پر کوئی گناہ نہیں ہوگا_
وہ کہنے لگا۔
⑩ " احب ان احشر يوم القيامة في النور " میں چاہتا ہوں روز قیامت مجھے نور میں اٹھایا جائے_
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" لا تظلم احدا ، تحشر يوم القيامة في النور " _ کسی پر ظلم مت كر ، روز قیامت تجھے نور میں اٹھایا جائے گا_
وہ کہنے لگا :
⑪ " احب ان يرحمني ربي " _
میں چاہتا ہوں کہ میرا رب مجھ پر رحم فرمادے ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" ارحم نفسك وارحم خلق الله ، يرحمك الله،
اپنے آپ پر رحم کھا اور اللہ کی مخلوق پر رحم کر اللہ تجھ پر رحم کرے گا ،
وہ کہنے لگا:
⑫ " احب ان تقل ذنوبي " میں چاہتا ہوں کہ میرے گناہ کم ہوجائیں_
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" استغفر الله، تقل ذنوبك " _ اللہ سے بخشش مانگ، گناہ کم ہو جائیں گے_
وہ کہنے لگا :
⑬ " احب ان اكون اكرم الناس "_ میں چاہتا ہوں کے لوگوں میں سب سے معزز بن جاؤں_
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تشكون الله الي الخلق تكن اكرم الناس" لوگوں کے سامنے اللہ کی شکایت ہرگز مت کر، تو معزز ترین شخص بن جائےگا_
وہ کہنے لگا :
⑭ " احب ان اكون من احباء الله ورسوله " میں اللہ اور اسکے رسول کا محبوب بننا چاہتا ہوں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" احب ما احب الله و رسوله و ابغض ما ابغض الله و رسوله " جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب ھو تو بھی اسے پسند کر ، اور اللہ اور اس کے رسول جس چیز سے بغض رکھے تو بھی اس سے بغض ركھ ،
وہ کہنے لگا:
⑮ " احب ان اكون امنا من سخط الله،_ میں اللہ کی ناراضگی سے مامون رہنا چاہتا ہوں ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" لا تغضب علي احد ، تامن من غضب الله و سخطه " کسی پر غصہ مت ہو، تو اللہ کے غصے اور ناراضگی سے محفوظ رہے گا؛
وہ کہنے لگا :
⑯ " احب ان تستجاب دعوتي "_ میں مستجاب الداعوات بننا چاہتا ہوں_
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" اجتنب الحرام ، تستجب دعوتك "، حرام سے پرہیز کر، مستجاب الدعوات بن جائے گا،
وہ کہنے لگا :
⑰ " احب لا يفضحني الله علي رؤس الاشهاد "_ میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی گواہوں کے سامنے مجھے رسوا نہ کرے ،
وہ کہنے لگا :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" احفظ فرجك كيلا تفتضح علي رؤس الاشهاد " _ اپنی شرمگاہ کی حفاظت کر ، تاکہ گواہوں کے سامنے رسوا نہ ہو؛
وہ کہنے لگا:
⑱ " احب ان يستر الله علي عىوبي"_ میں چاہتا ہوں کہ اللہ تعالی میرے عیبوں پر پردہ ڈال دے_
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" استر عيوب اخوانك ، يستر الله عليك عيوبك"_ اپنے بھائیوں کے عیبوں پر پردہ ڈال ، اللہ تیرے عیبوں پر پردہ ڈال دے گا ؛
وہ کہنے لگا :
⑲ " ما الذي يمحو عني الخطايا؟ "_ کونسی چیز میرے گناہوں کو مٹانے والے ہیں؟_
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" الدموع و الخضوع والامراض " آنسوؤں اور عاجزی اور بیماریا؛
وہ کہنے لگا :
⑳ " اي حسنة افضل عند الله ؟"_ اللہ کے نزدیک کونسی نيکی سب سے افضل ہے؟_
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
" حسن الخلق والتواضع والصبر علي البلية والرضاء بالقضاء " اچھے اخلاق، تواضع، مصیبت پر صبر، اور اللہ کے فیصلے پر رضامندی،
وہ کہنے لگا:
【۲۱】 " اي سيىٔة اعظم عند الله ؟" اللہ کے نزدیک کون سی برای سب سے بڑی ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" سوء الخلق،والشح المطاع "_ بد اخلاقی اور وہ بخل جس کی اطاعت کی گئی ہو؛
وہ کہنے لگا:
【۲۲】 " ما الذي يسكن غضب الرحمن ؟،_ رحمن کے غصے کو ٹھنڈا کرنے والی چیز کیا ہے ؟_
آپ صلی اللہ علیہ وس
لم نے فرمایا:
اخفاء الصدقة و صلة الرحم"_ چھپ کر صدقہ کرنا، اور صلہ رحمی؛
وہ کہنے لگا:
【۲۳】 " ما الذي يطفىٔ نار جهنم؟" دوزخ کی آگ کو بجھانے والی چیز کیا ہے؟،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" الصوم " روزہ ،
▪️علامہ جلال الدین سویطی رحمہ اللہ علیہ (المتوفی ٩١١ ھ ) نے "جامع الاحادیث" میں روایت نقل کی ہے، پھر یہی روایت شیخ علاؤالدین علی المتقی الہندی (المتوفی ٩٧٥ ھ ) نے " کنز العمال " میں امام سیوطیؒ کے حوالے سے نقل کی ہے‐
✍️ سند پر کلام
امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول زیربحث روایت میں کل تین راویوں کا ذکر ہے ؛
『۱』 قاضی شمس الدین ابن القماح
『۲』 ابوالعباس جعفر بن محمد بن المعتز بن محمد بن المستغفر النسفی المستغفریؒ،
『۳』 ابوحامد المصریؒ
(ان راویوں کی حالات زندگی اور ان پر مکمل کلام پڑھنے کے لیے کتاب کی طرف رجوع کریں اختصار کے پیش نظر میں یہاں سے اس تفصیل کو خذف کر رہا ہوں)
🌷سند کا خلاصہ🌷
خلاصہ سند یہ رہا کہ شمس الدین ابن القماح ( المولود ٦٥٦ ھ— المتوفی ٤٧١ ھ )اور خالد بن ولید ( المتوفی ٢١ ھ ) تک صرف دو راویوں کا نام صراحتا ذکر کیا گیا ہے، ایک ابولعباس المستغفری ( المولود بعد ٣٥٠ ھ— المتوفی ٤٣٢ ھ )، دوسرے ابوحامد المصری، جن کا ترجمہ بھی کتب رجال میں نہیں ملتا، ان کے علاوہ سند میں کسی کا نام مذکور نہیں ہے، اور احادیث میں صحت و سقم کا معیار سند کے راوی ہوتے ہیں، جن کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال اور فنی تفصیلات کو سامنے رکھ کر، رد و قبول کا مرحلہ طے کیا جاتا ہے ، اس لیے اس حدیث کے ثبوت کے لیے مذکورہ سند بالکل کافی نہیں ہے،
🌷ایک اہم نکتے کی وضاحت🌷
زیر بحث قصے میں یہ ہے کہ ابو العباس المستغفری نے ابوحامد المصری سے یہ حدیث مصر میں حاصل کی ہے، حالانکہ علامہ سمعانی کا قول ماقبل میں گزر چکا ہے، کہ ابو العباس المستغفری نسف کے خطیب تھے، اس کے بعد مروَ اور سرخس تک تشریف لائے ہیں لیکن سرخس سے آگے آپ نہیں گئے ، حالانکہ زیر بحث روایت میں ہے کہ آپ اس روایت حصول میں سرخس سے اگے مصر تک گئے، بہرحال علامہ ثمعانی کی مذکورہ تصریح اس روایت کے بالکل متضاد ہے، جس سے اس روایت کا ساقط الاعتبار ہونا اور بھی مئکد ہوجاتا ہے_
⚛روایت کا فنی مقام اور حکم⚛
زیر بحث روایت کی سند ہی ثابت نہیں ہے، کیونکہ پوری سند میں صرف دو راویوں کا نام مذکور ہیں ، جن میں سے ایک کا تو ذکر ہی کتب رجال وغیرہ میں نہیں ملتا ، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صرف ایسا کلام ہی منسوب ہوسکتا ہے جو پایۂ ثبوت تک پہنچ چکا ہو، بصورت دیگر روایت قابل التفات و بیان نہیں رہتی، چنانچہ شیخ عبد الفتاح ابو غُدہ "المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع للعلامة علی القاری " کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
▪️".....و اذا كان الحديث لا اسناد له، فلا قيمة له ولا يلتفت اليه، اذا الاعتماد في نقل كلام سيدنا رسول الله صلى الله عليه و سلم الينا، انما هو علي الاسناد الصحيح الثابت او ما يقع موقعه، وماليس كذلك فلا قيمة له" _
اور جب حدیث کی سند ہی نہ ہو، تو وہ بے قیمت اور غیر قابل التفات ہے؛ کیونکہ ہماری جانب ہمارے آقا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو نقل کرنے میں اعتماد صرف اسی سند پر ہو سکتا ہے، جو صحیح سند سے ثابت ہو یا جو اس کے قائم مقام ہو، اور جو حدیث ایسی نہ ہو تو وہ بے قیمت ہے "،_
🌐 خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ روایت کسی " معتبر سند " سے ثابت نہیں ہے ؛ اس لئے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔
✍️ شیخ ابن باز کا کلام:
یہ روایت بغیر سند کے منقول ہے اور جن لوگوں کی طرف نسبت کی جاتی ہے وہ سب کے سب مجہول راوی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اس روایت کو گھڑنے والے نے بہت سی روایات اور واقعات کو جوڑ کر یہ پورا مضمون بنایا ہے.
جاء رجلٌ إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ فقال: إني سائِلُك عمَّا یغنینی في الدنيا والآخرةِ، فقال له: سلْ عمَّا بدا لك، قال: يا نبيَّ اللهِ أحبُّ……الخ
– المصدر: مجموع فتاوى ابن باز.
– الصفحة أو الرقم: 26/330
{غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ جلد 1 ص 85}
Comments
Post a Comment