تمام تر دین ادب ہے

 🔲 غیر معتبر روایات سلسلہ نمبر 66 🔲

         

تمام تر دین،ادب ہے

روایت:

’’نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’الدین کله أدب‘‘ تمام تر دین، ادب ہے‘‘۔


✍️ روایت کا حکم

تلاش بسیار کے باوجود مذکورہ روایات سنداً تاحال ہمیں کہیں نہیں مل سکی، اورجب تک اس کی کوئی معتبر سند نہ ملے اسے آپ ﷺ کے انتساب سے بیان کرنا موقوف رکھا جائے، کیونکہ آپﷺ کی جانب صرف ایسا کلام وواقعہ ہی منسوب کیا جاسکتا ہے جومعتبر سند سے ثابت ہو، واللہ اعلم۔


نوٹ:  مذکورہ قول’’الدین کله أدب‘‘.اگر ائمہ میں سے کسی کا قول ہو تو ہم نے اس سے تعرض نہیں کیا۔ ہماری تحقیق مذکورہ جملہ بحیثیت حدیث نبویﷺ کے تناظر میں ہے۔


(غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ جلد دوم 404)


◾ادب کی اہمیت پر اقوال 


اَلْأَدَبُ ھُوَ الدِّینُ کُلُّہٗ۔[1]

’’سارے کا سارا دِین ہی ادب ہے۔‘‘


امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

مَنْ تَھَاوَنَ بَالْأَدَبِ عُوقِبَ بِحُرْمَانِ السُّنَنِ، وَمَنْ تَھَاوَنَ بِالسُّنَنِ عُوقِبَ بِحُرْمَانِ الْفَرَائِضِ، وَمَنْ تَھَاوَنَ بِالْفَرَائِضِ عُوقِبَ بِحُرْمَانِ الْمَعْرِفَۃِ۔[2]

’’جو شخص ادب کو کم تر سمجھتا ہے اسے سنتوں سے محرومی کی سزا ملتی ہے، جو سنتوں کو کم تر سمجھتا ہے اسے فرائض سے محرومی کی سزا ملتی ہے اور جو فرائض کو کم تر سمجھتا ہے اسے معرفت سے محرومی کی سزا ملتی ہے۔‘‘

اسی طرح آپ نے فرمایا:

نَحْنُ اِلٰی قَلِیلٍ مِنَ الْأَدَبِ أَحْوَجُ مِنَّا اِلٰی کَثِیرٍ مِنَ الْعِلْمِ۔[3]

’’ہم کو بہت زیادہ علم حاصل کرنے کی بہ نسبت تھوڑا سا ادب سیکھنے کی زیادہ ضرورت ہے۔‘‘


امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

أَدَبُ الْمَرْئِ عُنْوَانُ سَعَادَتِہٖ وَفَلَاحِہٖ، وَقِلَّۃُ أَدَبِہٖ عُنْوَانُ شَقَاوَتِہٖ وَبَوَارِہٖ۔[4]


’’آدمی کا ادب سے متصف ہونا اس کی سعادت مندی اور کامیابی کی نشانی ہے اور اس میں ادب کی کمی ہونا اس کی بدبختی اور ہلاکت و تباہی کی علامت ہے۔‘‘


امام یحییٰ بن معاذ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

مَنْ تَأَدَّبَ بِأَدَبِ اللّٰہِ صَارَ مِنْ أَھْلِ مَحَبَّۃِ اللّٰہِ۔[5]

’’جو شخص آدابِ الٰہی کو اپنا لیتا ہے وہ محبتِ الٰہی پانے والوں میں سے ہو جاتا ہے۔‘‘


امام حسن بصری رحمہ اللہ سے نفع مند ادب کا سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:

اَلتَّفَقُّہُ فِی الدِّینِ وَالزُّھْدُ فِی الدُّنْیَا وَالْمَعْرِفَۃُ بِمَا لِلّٰہِ عَلَیکَ۔[6]

’’دِین کی سوجھ بوجھ حاصل کرنا، دنیا سے بے رغبت ہونا اور اپنے ذِمے اللہ کے حقوق کی معرفت حاصل کرنا۔‘‘

اور کسی صاحبِ علم کا قول ہے:

اَلْأَدَبُ فِی الْعَمَلِ عَلَامَۃُ قُبُولِ الْعَمَلِ۔[7]

’’عمل میں ادب کا اہتمام عمل کی قبولیت کی علامت ہوتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ ہم سب کو آداب سے متصف کرے اور باادب بنائے (آمین)


📚 حوالہ جات

[1] مدارج السالکین: ۲-۳۹۲.

[2] مدارج السالکین: ۲-۳۹۲.

[3] مدارج السالکین: ۲-۳۹۷.

[4] مدارج السالکین: ۲-۳۶۳.

[5] شرح الأدب المفرد: ۲-۳۹۸.

[6] مدارج السالکین: ۲-۳۹۲.

[7] مدارج السالکین: ۲-۴۰۷.

〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️〰️

Comments